الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نامزد کیے گئے بیرسٹر گوہر علی خان کو چیئرمین کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کے بعد، سیاسی و پارلیمانی حلقوں میں یہ رائے مضبوط ہو گئی ہے کہ پی ٹی آئی اب عملاً قومی سیاست اور پارلیمان دونوں میں پس منظر میں چلی گئی ہے۔ باخبر اور حد درجہ قابلِ اعتماد سیاسی و پارلیمانی ذرائع کے مطابق، اس فیصلے نے نہ صرف پارٹی کی تنظیمی اور قانونی پوزیشن کو مزید کمزور کیا ہے بلکہ اس کے ادارہ جاتی وجود پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اس سے قبل رجسٹریشن سے محروم ہونے کے باعث پی ٹی آئی باضابطہ انتخابی عمل سے باہر ہو چکی تھی۔ حکومت نے اگرچہ محض غیر رجسٹرڈ حیثیت کی بنیاد پر اسے کالعدم قرار دینے کے آپشن پر سنجیدگی سے پیش قدمی نہیں کی، لیکن الیکشن کمیشن کی طرف سے اس کی قیادت اور اندرونی ڈھانچے کو تسلیم نہ کیے جانے کے سبب، پارٹی پر مکمل پابندی عائد کرنے کے عمل میں ایک مستقل رکاوٹ موجود تھی۔ اب الیکشن کمیشن کے تازہ مؤقف نے اس سیاسی ابہام کو مزید گہرا کر دیا ہے، کیونکہ پارٹی کی ادارہ جاتی شناخت پہلے ہی کمزور ہو چکی تھی اور اب اس کے پارلیمانی جواز کو بھی سخت دھچکا پہنچا ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے بعض ارکان کی جانب سے تحریک انصاف کے ساتھ وابستگی اور حمایت کے جو دعوے سامنے آ رہے تھے، انہیں بھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس رویے کے نتیجے میں ایوانِ بالا میں پی ٹی آئی کو سب سے کمزور اور عددی اعتبار سے سب سے چھوٹے گروپ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس سے سینیٹ کے اندر اس کی عملی سیاسی قوت تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
اسی دوران سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی سے متعلق سکیورٹی صورتحال کے پس منظر میں اڈیالہ جیل کے اطراف حفاظتی انتظامات غیر معمولی طور پر سخت کر دیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، جیل کے گرد و نواح میں پولیس اہلکاروں کی قابلِ ذکر تعداد کو آج (پیر) سے تعینات کر دیا گیا ہے اور ضرورت پڑنے پر ان کی تعداد میں مزید اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ حکام نے اپنے سکیورٹی پلان کے تحت اہلکاروں کی درست تعداد ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سکیورٹی اسٹرکچر کی تفصیلات عام نہ ہوں۔
بتایا گیا ہے کہ پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز کے دستوں کو بھی اڈیالہ جیل کے لیے فوری طور پر الرٹ کر دیا گیا ہے، جو کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں فوری مدد کے لیے دستیاب ہوں گے۔ جیل کی حفاظت کے لیے تین پرتوں پر مشتمل مستقل سکیورٹی حصار قائم کیا گیا ہے، جہاں پہلے ہی ناکے سے غیر متعلقہ افراد کو روک دیا جائے گا۔ اس مقام سے آگے صرف وہی لوگ جا سکیں گے جن کے ناموں کی فہرست پیشگی طور پر جیل انتظامیہ کو فراہم کی جا چکی ہو گی اور جنہیں سکیورٹی کلیئرنس حاصل ہوگی۔
جیل کے داخلی ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف کے بانی کو جیل کے اندر وہ تمام سہولتیں بدستور حاصل ہیں جو انہیں پہلے میسر تھیں، تاہم ان کی جانب سے لاہور میں اپنے نجی ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ٹیم کو معائنہ کے لیے بلوانے کی درخواست کے منظور کیے جانے کا امکان بہت کم ہے۔ جیل انتظامیہ نے تمام قیدیوں کو واضح طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ اگر انہیں علاج معالجے کی ضرورت ہو تو دن میں تین مرتبہ جیل کے خصوصی ڈاکٹرز کے ذریعے طبی معائنہ کرایا جا سکتا ہے، اور ضرورت پڑنے پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے مستند اور ماہر ڈاکٹروں کو بھی جیل میں معائنہ کے لیے طلب کیا جا سکتا ہے، تاہم اس سارے عمل کے لیے پہلی شرط یہ ہوگی کہ جیل کے اپنے ڈاکٹر کی جانب سے طبی سفارش تحریری طور پر موجود ہو۔
ان اقدامات کے نتیجے میں ایک جانب جہاں اڈیالہ جیل کے اطراف سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے، وہیں دوسری طرف تحریک انصاف کی سیاسی اور پارلیمانی حیثیت پر بھی گہرے سائے منڈلا رہے ہیں، کیونکہ الیکشن کمیشن کے تازہ فیصلے نے پارٹی کی تنظیمی بقا اور اس کے قانونی تشخص کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔