اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کا کہنا ہے کہ میں ایک جج کے طور پر خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میری ڈگری اصل ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ مین کیس کی سماعت کے دوران جسٹس طارق محمود جہانگیری روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے روسٹرم پر آئے تمام وکلاء کو واپس اپنی نشستوں پر جانے کا کہا اور ریمارکس دیئے کہ ’جہانگیری صاحب آئے ہوئے ہیں، ہلیز آپ سب بیٹھ جائیں‘، جسٹس جہانگیری نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’ مجھے رات کو نوٹس ملا ہے، مجھے وقت چاہیئے، جب آپ قائم مقام چیف جسٹس تھے تو میں نے آپ کے خلاف درخواست دی تھی، ضابطہ اخلاق ہے، آپ بھی جج ہیں میں بھی جج ہوں‘۔
اس پر جسٹس ڈوگر نے کہا کہ ’ہمارا اس کے خلاف کچھ لینا دینا نہیں ہے‘، جسٹس جہانگیری نے مؤقف اپنایا کہ ’ایک ضابطہ آخلاق ہے کہ ہم دونوں جج ہیں، میرا یہ اعتراض ہے، جب سے یہ عدالت بنی ہے ایک بار بھی رٹ درخواست جج کے خلاف سماعت نہیں ہوئی، مجھے سنے بغیر آپ نے اس درخواست کو قابلِِ سماعت قرار دیا، پاکستان یا دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی ہائیکورٹ جج نے ساتھی جج کو نوٹس دیا، ایک چپڑاسی کے کیس میں بھی آپ نوٹس دیتے ہیں‘۔
انہوں نے دلائل دیئے کہ ’ایچ ای سی نے بھی نہیں سنا، ایک سال پرانا کیس ہے اور مجھے تین دن کا نوٹس دیا ہے، پلیز یہ پنڈورا باکس نہ کھولیں، اس سے سب کیخلاف ایسی درخواستیں آنا شروع ہو جائیں گی، کراچی یونیورسٹی کی میری ڈگری کی منسوخی کا حکم معطل ہے، میں خدا کی قسم اُٹھا کر کہتا ہوں کہ میری ڈگری جعلی نہیں ہے اور اس کو میڈیا میں جعلی ڈگری کیس کے طور پر رپورٹ کیا جا رہا ہے، یونیورسٹی نے بھی اسے جعلی نہیں قرار دیا‘۔
جسٹس جہانگیری نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ پر اعتراض عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے آپ سے انصاف کی توقع نہیں ہے کیوں کہ پاکستان بھارت کی جوڈیشل ہسٹری میں کہیں پر ایسا نہیں ہوا جیسا آپ نے کیا، ڈگری کے معاملے میں سندھ ہائیکورٹ نے معطل کیا ہوا ہے، میرے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے، میں قرآن پر حلف لینے کو تیار ہوں میری ڈگری درست ہے، 34 سال پرانی ڈگری پر لکھ دیا جائے کہ جعلی ہے تو میں کہاں سے انصاف لینے جاوں؟ یہ تو سندھ ہائیکورٹ نے میری ڈگری بچائی ہے، کیس 11 ججز میں سے کسی اور کو بھیج دیں، مجھے وقت دیا جائے میں ریکارڈ سے دیکھ کر دلائل دوں‘۔