اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی شہریار آفریدی کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آڑڈر معطل کرتے ہوئے انہیں گھر جانے کی اجازت دیدی۔
شہریار آفریدی کی گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کی ، شہریار آفریدی قرآن پاک کا نسخہ اٹھا کر روسٹرم پر آگئے ۔
جسٹس بابر ستار نے ڈپٹی کمشنر کو روسٹرم پر بلا لیا۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ 9 مئی کے واقعات سب کے سامنے ہیں، انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق شہریار آفریدی نے اشتعال پھیلایا۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ جیل کے اندر سے انہوں نے لوگوں کو کیسے اشتعال دلایا؟ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ میری آنکھیں اور کان تو انٹیلی جنس رپورٹس ہی ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ شہریار آفریدی کی گرفتاری کے وقت ڈی پی او کون تھا؟ متعلقہ ڈی پی او روسٹرم پر آگئے ،عدالت نے ان سے پوچھا کہ آپ کے پاس شہریار آفریدی کی پلاننگ سے متعلق کیا معلومات تھیں ؟ ڈی پی او نے بتایا کہ میں اس وقت چھٹی پر گیا ہوا تھا۔
جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ پولیس حکام بتائیں کہ 8 مئی کو اسلام آباد میں کیا صورتحال تھی؟ آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان نے بتایا کہ ہم نے یہ کارروائیاں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کیں۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ اسپیشل برانچ کی رپورٹ تو مذاق ہے، وہ نوٹیفکیشن کہاں ہے جس پر شہریار آفریدی کی گرفتاری کی اجازت دی گئی۔
ایس ایس پی کے وکیل طاہر کاظم نے بتایا کہ پہلا ایم پی او آرڈر کالعدم قرار دینے کی وجوہات مختلف تھیں، عدالت نے کہا کہ نظربندی احکامات بعد میں جاری ہوئے اور گرفتار پہلے کیا گیا۔
جسٹس بابرستار نے کہا کہ عدالت آردڑ کالعدم قرار دیتی ہے ۔ پھر نیا ایم پی او آرڈر آجاتا ہے، جسٹس بابر ستار نے ایس ایس پی آپریشنز کا جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایس ایس پی آپریشنز پر بھی فرد جرم عائد کی جائے گی۔
عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا کہ شہریار آفریدی سے اڈیالہ جیل میں کس کس نے ملاقات کی؟
جسٹس بابر ستات نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پر بھی چارج فریم کیا جائے گا۔