سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مسلم لیگ کی سینیئر لیڈرشپ سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ ہوا ہے کہ نواز شریف اکتوبر میں پاکستان واپس جائیں گے اور مسلم لیگ ن کی الیکشن مہم کی سربراہی کریں گے۔
جمعہ کو لندن میں شریف خاندان نے اس ضمن میں مشاورت کے لیے میٹنگ کا انعقاد کیا تھا جس میں پارٹی کے لندن میں موجود رہنما بھی شامل تھے۔
اجلاس اپنے بڑے بھائی نواز شریف اور دیگر پارٹی رہنماؤں کی موجودگی میں میڈیا سے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ مشاورت کے نتیجے میں طے پایا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے تاہم انھوں نے اس ضمن میں کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نواز شریف پاکستان واپس جا کر قانون کا سامنا کریں گے انھوں نے کہا کہ شفاف احتساب وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر پاکستان کی ترقی ناممکن ہے۔
انتخابات سے متعلق ایک سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ انھوں نے آئین اور قانون کے مطابق وقت سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کیں اور اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت پر الیکشن کا انعقاد کریں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا نوازشریف کی کوشش کے باوجود انکی اپنی بیمار اہلیہ سے بات نہیں کرائی گئی تھی۔ نوازشریف پر رات تک جرح ہوتی تھی، عطا بندیال کو یاد نہ آیا۔
لندن میں شہباز شریف نے قائد ن لیگ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور اس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں نواز شریف کو پاناما کیس میں سزا دیے جانے کے عدالتی فیصلے پر تنقید کی۔
انھوں نے کہا کہ نوازشریف کو پاناما کیس میں سازش سے ملوث کیا گیا، پاناما میں 450 کے قریب دیگر افراد کے نام بھی تھے، لیکن دوسرے لوگوں کو پوچھا تک نہیں گیا۔
انھوں نے کہا کہ پاناما میں نوازشریف کا دور دور تک نام نہیں تھا، ایک بینچ نے پاناما سے اقامہ کا فیصلہ کیا، نوازشریف پر جھوٹے کیسز بنائے گئے۔
ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے شہباز شریف نے مزید کہا کہ نوازشریف جیل میں اور کلثوم نواز لندن میں اسپتال میں تھیں، نوازشریف کی کوشش کے باوجود انکی اپنی بیمار اہلیہ سے بات نہیں کرائی گئی تھی۔ ”کاش (چیف جسٹس پاکستان) عمر عطا بندیال، نوازشریف کے وقت بھی پوچھ لیتے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ایک سو دن تک نوازشریف روزانہ بیٹی کے ہمراہ احتساب عدالت میں پیش ہوتے رہے،نوازشریف پر رات تک جرح ہوتی تھی، عطا بندیال کو یاد نہ آیا“۔