اسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پیش رو جسٹس (ر) انور کاسی کی جانب سے ’منظورِ نظر افسران‘ کی ترقی، تبادلے یا تعیناتی اور سرکاری رہائش گاہیں الاٹ کرنے کے احکامات معطل کردیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مذکورہ معاملات عدالت عالیہ کے سینئر ججز پر مشتمل انتظامی کمیٹی کو تفویض کردیے۔
واضح رہے کہ جسٹس انور کاسی مقررہ عمر تک پہنچنے کے بعد 27 نومبر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے لیکن ریٹائرمنٹ سے محض ایک روز قبل انہوں نے سرکاری مسجد کے خطیب محمد شاہد کو گریڈ 10 سے گریڈ 17 میں ترقی دی تھی۔
واضح رہے کہ 26 ستمبر 2016 کو سپریم کورٹ کے دیے گئے تاریخی فیصلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے کی گئی 70 سے زائد تعیناتیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اور سرکاری افسران کی ان تقرریوں اور ناجائز ترقیوں کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
کمیٹی کی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی نے 13 مئی 2014 کو خطیب مسجد کو غلط طور پر گریڈ 17 میں ترقی دی جس کے بعد ان کی واپس ان کے پرانے پے اسکیل بی پی ایس-10پر کردی گئی تھی جس پر وہ 2011 میں تعینات ہوئے تھے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ’یہ ترقی سروس قوانین کے متعین کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کے تحت کی گئی تھی‘۔
اس کے ساتھ جسٹس اطہر من اللہ نے ہائی کورٹ کے گریڈ 18 کے 2 افسران، کورٹ ریڈر مدثر ریاض اور اسٹینو گرافر ثنا اللہ کو کی جانے والی سرکاری رہائش گاہوں کی الاٹمنٹ کو بھی روک دیا، جنہیں غیر قانونی طور پر اسٹیٹ آفس کی جانب سے رہائش گاہیں الاٹ کی گئی تھیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیٹی نے فیصلے کی روشنی میں محمد سہیل کی بھی گریڈ 20 سے واپس گریڈ 18 پر تنزلی کردی، جو جسٹس انور کاسی کے پرسنل سیکریٹری کی حیثیت سے 2011 سے گریڈ 18 پر ان کے ساتھ کام کررہے تھے۔