چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خود نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی، ہائی کورٹ نے صرف جزویات طے کیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کا عدلیہ سے متعلق بیان پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے جس کیس کا طعنہ دیا اس پر بات نہیں کرنا چاہتا، ججز پر تنقید اور طاقتور کا طعنہ ہمیں نہ دیں، ججز پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں، وزیراعظم نے خود نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی، ہائی کورٹ نے صرف جزویات طے کیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج کی عدلیہ کا تقابلی جائزہ 2009 سے پہلے والی عدلیہ سے نہ کریں، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے، ایک وزیراعظم کو ہم نے سزا دی، دوسرے کو نااہل کیا اور سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے، کوئٹہ کے کیس کا 3 ماہ میں سپریم کورٹ سے فیصلہ ہوا، 2 دن پہلے ایک قتل کیس کا ویڈیو لنک کے ذریعے فیصلہ کیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں 3100 ججز نے گذشتہ سال 36 لاکھ مقدمات کے فیصلے کیے، سپریم کورٹ میں 25 سال سے زیرالتواء فوجداری اپیلیں نمٹائی گئیں، جن لاکھوں افراد کو عدلیہ نے ریلیف دیا انہیں بھی دیکھیں، 36 لاکھ مقدمات میں سے صرف تین چار ہی طاقتور لوگوں کے ہوں گے۔
وزیراعظم نے جس کیس کی بات کی وہ ابھی زیرالتواء ہے اس لیے اس پر بات نہیں کروں گا، وزیراعظم نے طاقتور اور کمزور کی بھی بات کی، اب ہمیں وسائل کی کمی محسوس ہو رہی تھی، وزیراعظم جب وسائل دیں گے تو مزید اچھے نتائج بھی سامنے آئیں گے، محترم وزیراعظم نے دو دن پہلے خوش آئند اعلان کیا کہ عدلیہ کو وسائل دیں گے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ماڈل کورٹس نے تمام نتائج صرف 187 دنوں میں دیے، فیملی مقدمات طاقتور لوگوں کے نہیں ہوتے، 20 اضلاع میں کوئی سول اور فیملی اپیل زیرالتواء نہیں، منشیات کے 23 اضلاع میں کوئی زیرالتواء مقدمات نہیں، ماڈل کورٹس کی وجہ سے 116 اضلاع میں سے 17 میں کوئی قتل کا مقدمہ زیر التواء نہیں، تمام اپیلوں کے قانون کے مطابق فیصلے کیے گئے، تمام اپیلیں ناتواں لوگوں کی ہیں طاقتور اور کمزور میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔