اسلام آباد: ایک پارلیمانی کمیٹی نے حکومت سے کہا کہ وہ کووڈ 19 اور مہنگائی کے منفی معاشی اثرات سے لڑنے کے لیے سالانہ 12 لاکھ روپے سے کم آمدن والے افراد کو کم از کم ایک سال کے ٹیکس استثنیٰ کی پیشکش کرے۔
رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو کا اجلاس سینیٹر طلحہ محمود کی سربراہی میں ہوا۔
کمیٹی نے اسٹیٹ بینک پاکستان کو کہا کہ ‘سیاسی طور پر بے نقاب’ افراد کی اصطلاح کے ساتھ سیاستدانوں کو بدنام نہ کریں جس کے تحت بینکوں نے معاشرے کے بعض طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جن میں وکلا، جج اور سیاستدان شامل ہیں جیسے کہ وہ منی لانڈرنگ دہشت گردی کی مالی معاونت اور بدعنوانی میں ملوث ہوں۔
کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ آڈٹ فرموں کے مابین اتفاق کے فقدان اور قانونی خرابیاں ریگولیٹرز کو لسٹڈ کمپنیوں کی جانب سے مالی بیانات کی غلط رپورٹنگ کے خلاف بروقت کارروائی کرنے سے روکتی ہیں۔
کمیٹی نے اسٹیٹ بینک سے کہا کہ وہ آئی بی ایف ٹی چارجز کو ختم کرے کیونکہ اس سے ڈیجیٹلائزیشن اور دستاویزی معیشت کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
کمیٹی نے ہدایت کی کہ یہ غریبوں کے خلاف تعزیراتی کارروائی ہے جسے ختم ہونا چاہیے اور ایک ماہ کے اندر اس پر تعمیلی رپورٹ پیش کی جائے۔
اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر جمیل احمد نے وضاحت کی مرکزی بینک نے بینکوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ انفرادی صارفین کو کم سے کم 25 ہزار روپے ماہانہ فی اکاؤنٹ کی ڈیجیٹل فنڈ ٹرانسفر سروس مفت فراہم کریں۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے تحت انفرادی صارفین ماہانہ حدود میں رہتے ہوئے جتنے چاہے مفت فنڈز ٹرانسفر کرسکتے ہیں۔
تاہم ایک مہینے میں 25 ہزار روپے فی اکاؤنٹ کی مجموعی حد سے زائد کے لین دین پر بینک انفرادی صارفین سے رقم کے 0.1 فیصد یا 200 روپے، جو بھی کم ہو، اتنی ٹرانزیکشن فیس وصول کر سکتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے عہدیدار نے کہا کہ جولائی 2021 اور اگست کے 19 دنوں کے دستیاب اعداد و شمار سے پمعلوم ہوتا ہے کہ آئی بی ایف ٹی ٹرانزیکشنز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
کمیٹی نے ہیسکول کے مالی بحران پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی کے حصص کی قیمت دو سال سے بھی کم عرصے میں 300 روپے فی شیئر سے گھٹ کر 7.80 روپے فی شیئر رہ گئی جس سے عام صورف متاثر ہوا، لہٰذا کمیٹی نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جاری تحقیقات کے علاوہ ہیسکول کے اکاؤنٹس اور لین دین کے فرانزک آڈٹ کا حکم دیا۔
کمیٹی متفق تھی کہ عوامی فراڈ سے متعلق معاملہ مجرمانہ کارروائیوں کے تحت چلنا چاہیے لیکن سالانہ مالیاتی اسٹیٹمنٹس کو بار بار بحال کرنے کی اجازت دینے کے لیے آڈٹ فرموں کے خلاف بھی مجرمانہ جرائم کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔