ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سلمان چوہدری نے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں انکشاف کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اس وقت پاکستانی شہریوں کو عمومی بنیادوں پر ویزے جاری نہیں کر رہا، جس سے ہزاروں پاکستانیوں کے لیے روزگار، کاروبار اور سفری منصوبوں پر براہِ راست اثر پڑ رہا ہے۔
اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان دیرینہ سفارتی، معاشی اور ثقافتی تعلقات موجود ہیں، جبکہ یو اے ای مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور وہاں لاکھوں پاکستانی تارکینِ وطن مقیم ہیں جو وطن واپس خطیر ترسیلات زر بھیجتے ہیں۔ اس اہم پس منظر کے باوجود، امارات نے پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے ویزوں کا سلسلہ مؤثر طور پر روک دیا ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ گزشتہ عرصے میں صورتحال انتہائی تشویشناک حد تک پہنچ گئی تھی اور سعودی عرب اور یو اے ای دونوں نے پاکستانی پاسپورٹ پر مکمل پابندی عائد کرنے پر غور کیا تھا، تاہم آخری وقت میں یہ قدم مؤخر کر دیا گیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسی پابندی کسی بھی وقت نافذ ہو گئی تو اسے ختم کرانا انتہائی مشکل ہوگا اور اس کے سنگین سفارتی، معاشی اور معاشرتی نتائج سامنے آئیں گے۔
سلمان چوہدری نے بتایا کہ فی الحال یو اے ای صرف نیلے پاسپورٹ (سرکاری) اور ڈپلومیٹک پاسپورٹ رکھنے والوں کو ویزے جاری کر رہا ہے، جبکہ عام پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے افراد کو ویزوں کا اجرا تقریباً بند ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں بہت کم ویزے جاری ہوئے ہیں اور وہ بھی پیچیدہ اسکریننگ اور سخت جانچ پڑتال کے بعد۔
سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر سمینہ ممتاز زہری نے اجلاس کے بعد ’ڈان‘ سے گفتگو میں وزارتِ داخلہ کے مؤقف کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یو اے ای حکام مبینہ طور پر یہ جواز پیش کر رہے ہیں کہ کچھ پاکستانی شہری امارات میں جا کر جرائم میں ملوث پائے گئے، جس کی وجہ سے مجموعی طور پر پاکستانیوں کے لیے ویزوں کی پالیسی سخت کر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ ویزوں کے حصول کا عمل انتہائی مشکل ہو چکا ہے اور حالیہ عرصے میں جاری کیے گئے ویزوں کی تعداد نہایت کم ہے، جس سے ہزاروں خاندان اور ملازمت کے خواہشمند نوجوان مشکلات کا شکار ہیں۔