بلوچستان کی سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل نے حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے چیئرمین سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے میں کہا کہ آج ایوان میں پی ٹی آئی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں، ہم ایوان میں موجود رہیں گے اور اپنی بات کرتے رہیں گے، پی ٹی آئی کے ساتھ 2 معاہدے ہوئے، ہم بنی گالہ نہیں گئے، وہ کوئٹہ آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 8 اگست 2018ء کو پہلا معاہدہ ہوا، جس پر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور یار محمد رند نے دستخط کیے تھے، ہم نے مِسنگ پرسنز کا مسئلہ حل کرنے اور نیشنل ایکشن پلان پر لیٹر اینڈ اسپرٹ کے ساتھ عمل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، ان دونوں معاہدوں میں کوئی بتا دے کہ کوئی ایک بھی غیر آئینی مطالبہ ہے؟
چیئرمین بی این پی نے کہا کہ کیوں آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا؟ یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جو 1948ء سے چلا آ رہا ہے،
چمن سے کراچی تک سڑک کی بنیاد 1973ء میں رکھی گئی تھی، ساڑھے 4 ہزار لوگ اس سڑک پر حادثات کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے ہیں، ہمیں 6 رویہ سڑک کی بجائے 2 لین کی سڑک ہی دے دیں۔
نہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے علاج کے بارے میں کوئی کہتا ہے کہ ثناء مکی کھالو، کوئی کہتا ہے کہ کلونجی کھالو، ہم تو سب سبزیاں کھا کھا کر تھک گئے، کورونا وائرس کو نظر انداز کر کے تفتان بارڈر ایسے کھولا گیا جیسے ماضی کی طرح ڈالرز آئیں گے، تفتان بارڈر کھولنا ہی تھا تو احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتیں۔
اختر مینگل نے کہا کہ یہ نہیں کہتے کہ لوگوں کو بند کر دیا جاتا لیکن کوئی بہتر انتظامات تو کر دیتے، انہیں جن کیمپس میں رکھا گیا وہاں کوئی ایک گھنٹہ نہیں گزار سکتا تھا، تفتان بارڈر پر نالائقی سے جو ہلاکتیں ہوئیں ان کی ایف آئی آرز حکمرانوں کے خلاف کاٹی جائیں، بجٹ کے عوام دوست ہونے کے آئندہ امکانات بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں انصاف ملتا نہیں بکتا ہے، یہاں انصاف منڈیوں میں بکتا ہے، پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کر کے ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے، افسوس کی بات ہے کہ یہاں ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں، لگتاہے کہ اس ایوان کو ہائیڈ پارک کارنر بنا دیا گیا ہے جہاں صرف تقاریر ہوتی ہیں۔
چیئرمین بلوچستان نیشنل پارٹی نے کہا کہ اگر تجاویز کو حل نہیں کرسکتے تو کم ازکم ان کو نوٹ تو کر لیں، اگر نوٹس لینے کے لیے سرکار کے پاس کاغذ اور پنسل نہیں تو ہم اس کے لیے چندہ دینے کو تیار ہیں، مولانا صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ چندہ جمع کرنے کے لیے مساجد سے اعلانات کریں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں روایت بن گئی ہے کہ ہر بات کا ذمے دار پچھلی حکومت کو قرار دیا جاتا ہے، یہ مت کہیں کہ ہمیں خالی خزانہ ورثے میں ملا ہے، حکومتی وزیر نے بجٹ تقریر میں کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرِ ثانی ہوگی، بجٹ دستاویز کے صفحہ نمبر 15 پر لکھا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی ہو گی، کیا یہ سلپ آف ٹنگ ہے یا مس پرنٹ؟ نہیں جناب یہ آپ کی پالیسی کا حصہ ہے۔