پاکستانی کرنسی نے ایک اور مشکل دن گزارا جب انٹربینک اور اوپن مارکیٹ دونوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ مالیاتی ماہرین کے مطابق، ڈالر کی بڑھتی ہوئی مانگ، درآمدات میں اضافہ، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ نے ملکی کرنسی کو مسلسل دباؤ کا شکار بنا رکھا ہے۔
انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 18 پیسے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے بعد امریکی کرنسی 284 روپے 40 پیسے پر ٹریڈ کرنے لگی۔ اسی طرح اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر 20 پیسے مہنگا ہو کر 286 روپے 85 پیسے تک جا پہنچا۔ یہ روپے کی قدر میں گزشتہ 19 ماہ کی کم ترین سطح ہے، جو ملک کی معاشی صورتحال پر گہرے تشویش کے بادل منڈلاتے دکھائی دے رہی ہے۔
کرنسی ڈیلرز کے مطابق، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے مسلسل مارکیٹ سے ڈالرز کی خریداری کر رہا ہے، جس سے بھی ڈالر کی قیمتوں پر اوپر کی جانب دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ درآمدات کے بڑھتے ہوئے حجم، خاص طور پر توانائی اور دیگر ضروری اشیاء کی درآمد، کے ساتھ ساتھ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں نے بھی ڈالر کی مانگ میں اضافہ کیا ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگرچہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں، لیکن طویل المدت میں برآمدات میں اضافہ اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے جامع پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو یہ مہنگائی کے دباؤ کو مزید بڑھا سکتا ہے، جس کا براہ راست اثر عوام کی خریداری کی صلاحیت پر پڑے گا۔
حکومت اور مالیاتی اداروں کے لیے یہ ایک چیلنج بن چکا ہے کہ وہ روپے کے استحکام کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔ معاشی حلقوں میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ درآمدات پر کنٹرول، برآمدات کو فروغ، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی طرف توجہ دی جائے تاکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا جا سکے۔