بین الاقوامی جریدے میں شائع کراچی یونیورسٹی کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد ٹاؤن میں فراہم کیے جانے والے پانی میں انتہائی آلودہ دھاتوں کے ذرات اور فضلہ کی آلودگی پائی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل جرنل آف انوائرمینٹل کوالٹی میں ’لیاقت آباد ٹاؤن کو فراہم کیے جانے والے پانی کے معیار کا جائزہ واٹر کوالٹی انڈیکس اور جغرافیائی تجزیے کے ذریعے‘ کے عنوان سے یہ تحقیق شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق کو کراچی یونیورسٹی کے انوائرمنٹل اسٹڈیز کے شعبے (آئی ای ایس) میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عامر عالمگیر اور ان کی ٹیم ڈاکٹر نور فاطمہ، شاہ نور خان، علیزہ نصیر، علیزہ خان، محمد نعمان صدیقی اور فہیم جعفری نے سر انجام دیا۔
ٹیم نے 2022 میں لیاقت آباد ٹاؤن سے پائپ لائن کے ذریعے فراہم کیے جانے والے پانی کے 23 نمونے حاصل کیے اور ان کی خصوصیات اور ان کے شفاف ہونے کے معیار کا جائزہ لیا۔
محققین نے دھات کی آلودگی کی وجہ سے پینے کے پانی کے 95.6 فیصد نمونوں کو غیر محفوظ قرار دیا جبکہ تقریباً 74 فیصد نمونوں میں ’ای کولی‘ پایا گیا اور 70 فیصد سے زیادہ نمونے میں فضلے کی آلودگی پائی گئی۔
تحقیق کے مطابق صرف ’دو نمونے ضرورت سے زیادہ گندے تھے، جبکہ باقی نمونے قدرے گدلے تھے جو مختلف بیماری پیدا کرنے والے متعدد جراثیم اور پیراسائٹس کی افزائش کے لیے موزوں حالات فراہم کر رہے تھے، کچھ نمونوں میں کل تحلیل شدہ ٹھوس، کلورائیڈز کی سطح زیادہ پائی گئی جو صحت عامہ کے لیے نقصان دہ ہیں اور گردے کی پتھری اور امراض قلب کا سبب بن سکتے ہیں۔
ٹیم نے نمونوں میں لوہے، نکل اور آئرن کے زیادہ مقدار میں پائے جانے کا بھی انکشاف کیا، اس کے علاوہ، 78.27 فیصد نمونوں میں سنکھیا (آرسینک) کی بھی زیادہ مقدار پائی گئی ۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ انسانی صحت پر دھات کے زیادہ استعمال کے اثرات کا بڑے پیمانے پر مطالعہ کیا گیا ہے اور یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ نقصان دہ ہیں، یہاں تک کہ کم سطح پر بھی، سنکھیا سے آلودہ پانی کے طویل استعمال سے ذیابیطس، دل، پھیپھڑوں اور کینسر کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹر عالمگیر نے ڈان کو بتایا کہ ’پانی کی آلودگی کی بڑی وجوہات خراب تقسیم کا نظام، لیک یا ٹوٹی ہوئی لائنیں اور پینے کی لائنوں کا سیوریج لائنوں سے ملنا شامل ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ سلفیٹ جیسی کچھ دھاتوں کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ گھروں کو فراہم کیا جانے والا پانی کسی مقام پر صنعتی فضلے سے آلودہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں پانی کا ناقص معیار تمام اموات کا 40 فیصد اور تمام بیماریوں کا 30 فیصد ہے، بچوں میں موت کی سب سے زیادہ وجہ اسہال (ڈائریا) ہے، مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں ہر پانچواں فرد آلودہ پانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہے۔
اس سے قبل ٹیم نے پورے شہر کے پانی کا تفصیلی تجزیہ کیا تھا جس کے بعد زیادہ خطرے والے علاقوں کا مطالعہ کیا گیا تھا اور اسی طرح کے نتائج برآمد ہوئے تھے۔