بھارتی ریاست اترپردیش میں واقع ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو آج 26 برس مکمل ہو گئے ہیں۔
چھ دسمبر 1992 کو انتہاپسند ہندوؤں کے ٹولے نے تمام قانونی، سماجی و اخلاقی اقدار پامال کرتے ہوئے تاریخی بابری مسجد شہید کردی تھی۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بابری مسجد کے انہدام کو 26 برس مکمل ہونے پرمسلمان تنظیموں نے ’ یوم سیاہ‘ اور انتہا پسند ہندو جماعتوں نے ’سوریہ دیوس‘ منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔
ایک بھارتی خبررساں ایجنسی نے پولیس سپرٹنڈنٹ انل کمار سسودیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت (انہدام) ہوئی تھی جس کی وجہ سے مختلف تنظیموں نے اپنے اپنے طور پر پروگراموں کے انعقاد کا اعلان کررکھا ہے۔
ایس پی پولیس نے خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ سرکار نے ایودھیا میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں۔
انل کمار سسودیا نے بتایا کہ سیکیورٹی کے لیے مقامی پولس کے علاوہ 12 ایڈیشنل پولیس سپرٹنڈنٹ، 40 سب انسپکٹرز، 50 ایس ایچ اوزاور 100 کانسٹیبلز سمیت دس کمپنی پی اے سی اور آر اے ایف کو تعینات کیا گیا ہے۔
بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سب سے پرانے مدعی ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری نے گزشتہ سال بھی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا تھا کہ’’ میں رام مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی میرے والد تھے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ایودھیا میں ایک نہیں ہزاروں رام مندر بنیں مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، میرا تو بس یہی کہنا ہے کہ بابری مسجد ہماری ہے اور اسی حق کی لڑائی لڑتے ہوئے ہمارے والد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان کے بعد میں لڑرہا ہوں‘‘۔
بابری مسجد کا پس منظر
بھارت میں تعمیر کی گئی تین گنبدوں والی قدیم مسجد شہنشاہ بابر کے دور میں اودھ کے حاکم میرباقی اصفہان نے 1528 عیسوی (935 ہجری) میں تعمیر کرائی تھی۔
مسجد کے مسقف حصہ میں تین صفیں تھیں اور ہر صف میں ایک سو بیس نمازی کھڑے ہوسکتے تھے، صحن میں چار صفوں کی وسعت تھی، اس طرح بیک وقت ساڑھے آٹھ سو نمازی نماز ادا کرسکتے تھے۔
مسجد کے درمیانی مرکزی در کے اوپر 2 میٹر لمبی اور 55 سینٹی میٹر چوڑی پتھر کی تختی کا ایک کتبہ نصب تھا، جس کی پہلی اوپر سطر میں ”بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ ثقتی“ خوشنما بیلوں کے درمیان لکھا ہوا تھا، اور نیچے کی تین سطروں میں فارسی زبان کے اشعار درج تھے۔