معروف کمپنی سام سنگ الیکٹرونکس نے اپنی فیکٹریوں میں کام کرنے والے کچھ ملازمین کے کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد معافی مانگ لی جس سے ایک دہائی سے جاری تنازع بالآخر اختتام پزیر ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق کمپنی کے سابق ملازمین کی موجودگی میں کینسر کی وجہ سے انتقال کر جانے والے ایک 22 سالہ ملازم کے والد اور کمپنی کے شریک صدر کم کی نیم نے باضابطہ طور پر ایک سمجھوتے پر دستخط کردیے۔
اس موقع پر کم کی نیم کا کہنا تھا کہ ہم دل سے ان تمام ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ سے معافی مانگتے ہیں جنہیں بیماری کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم اپنی سیمی کنڈکٹر اور ایل سی ڈی فیکٹریز میں صحت کو لاحق خطرات کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کرنے میں ناکام ہوگئے۔
واضح رہے کہ سام سنگ الیکٹرونکس دنیا کی سب سے بڑی موبائل فون اور چِپ ساز کمپنی ہے اور معروف سام سنگ گروپ کی ذیلی کمپنی ہے جو جنوبی کوریا کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
کمپنی کے خلاف مہم چلانے والے افراد کا کہنا تھا کہ سام سنگ سیمی کنڈکٹر اور ڈسپلے فیکٹری میں کام کرنے والے 2 سو 40 افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔
مہلک بیماری کا شکار ہونے والوں میں 80 افراد ہلاک ہوگئے جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔
رواں ماہ اس حوالے سے ہونے والے ایک سمجھوتے میں اعلان کیا گیا تھا کہ سام سنگ الیکٹرونکس متاثرہ ملازمین کو معاوضہ ادا کرے گی اور ایک ملازم کو پاکستانی رقم 17 لاکھ 80 ہزار سے زائد ادا کیے جائیں گے۔
متاثرہ افراد میں 16 اقسام کے کینسر، کچھ غیر معمولی بیماریاں، اسقاطِ حمل اور ملازمین کے بچوں میں ہونے والی پیدائشی بیماریاں شامل ہیں، ان میں کچھ ایسے دعویدار بھی شامل ہیں جنہوں نے 1984 میں فیکٹریوں میں کام کیا تھا۔
خیال رہے کہ معاملہ 2007 میں اس وقت منظرِ عام پر آیا جب سیمی کنڈکٹر اور ڈسپلے فیکٹریوں کے سابق ملازمین اور ان کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ ملازمین مختلف اقسام کے کینسر میں مبتلا ہوئے جن میں سے کچھ انتقال کرگئے۔
سیول کی حکومتی لیبر ایجنسی اور ایک ثالثی کمیٹی نے ا س کیس کو ایک دہائی تک جاری رکھا جس کے بعد بالآخر معافی کا اعلان سامنے آگیا۔
اس مقدمے میں اہم بات یہ تھی کہ سام سنگ نے مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے مخصوص کیمیکل کے بارے میں بتانے سے انکار کردیا تھا جو ان بیماریوں کا سبب بن رہا ہے اور اسے ایک ’تجارتی راز‘ قرار دیا تھا۔