سروں کی ملکہ ترنم نور جہاں کا 93واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے،ان کے لازوال گیت اور غزلیں آج بھی شائقین کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ کوئل جیسی آواز اور منفرد طرز ادائیگی کے باعث مداحوں کے دلوں پر ہمیشہ کی طرح آج بھی راج کرتی ہیں۔
ملکہ ترنم نورجہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا اور وہ 21 ستمبر1926ءکو محلہ کوٹ مراد خان، قصور میں پیدا ہوئی تھیں۔
انہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغازبطور چائلڈ اسٹار 1935ءمیں کلکتہ میں بننے والی فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی سے کیا۔
چند مزید فلموں میں کام کرنے کے بعد 1938ءمیں وہ لاہور واپس آگئیں جہاں انہوں نے فلم ساز دل سکھ پنجولی اور ہدایت کار برکت مہرا کی فلم گل بکاﺅلی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔یہی وہ فلم تھی جس سے بطور گلوکارہ بھی ان کی شہرت اور مقبولیت کا آغاز ہوا، اس کے بعد انہوں نے فلم یملا جٹ اور چوہدری میں کام کیا۔ 1941ءمیں موسیقار غلام حیدر نے انہیں اپنی فلم خزانچی میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941ءمیں ہی بمبئی میں بننے والی فلم خاندان ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔
اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے ان کی محبت پروان چڑھی اور دونوں نے شادی کرلی۔
قیام پاکستان سے پہلے نورجہاں کی دیگر معروف فلموں میں،دوست، لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی اور جگنو کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے فلم چن وے سے اپنے پاکستانی کیریئر کا آغاز کیا۔
اس فلم کی ہدایات بھی انہی نے دی تھی۔ بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کرلیا۔
ایک ریکارڈ کے مطابق ملکہ ترنم نورجہاں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم گبھرو پنجاب دا تھی جو 2000ءمیں ریلیز ہوئی تھی۔
حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور نشان امتیاز کے اعزازات عطا کیے تھے جبکہ ان کے مداحین نے انہیں ملکہ ترنم کا خطاب سے نوازا تھا۔ 23 دسمبر 2000ء کو نورجہاں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ وہ کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔