لاہور کی رہائشی خاتون نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم پر 10 سال کے عرصے تک جنسی تعلقات رکھنے سمیت دیگر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کردیے۔
حامزہ نامی خاتون نے گزشتہ روز لاہور پریس کلب میں کی گئی پریس کانفرنس میں بابر اعظم پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے۔
خاتون کا کہنا تھا کہ کانفرنس کا مقصد اپنے ساتھ ہونے والی مالی اور جنسی زیادتی کو منظر عام پر لانا ہے، انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ بابر اعظم ہے جو اس وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان ہے۔
حامزہ نامی خاتون کا کہنا تھا کہ بابر اعظم سے ان کا تعلق اس وقت سے ہے جب ان کا کرکٹ کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بابر اعظم اور وہ ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور ایک ہی اسکول میں بھی زیر تعلیم رہے، اسکول اور ایک محلے میں رہنے کی وجہ سے ہم دونوں کی بہت اچھی دوستی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 2010 میں بابر اعظم نے مجھے پرپوز کیا جسے میں نے قبول کیا اور بابر اعظم نے وہ پرپوزل میرے گھر آکر دیا تھا۔
حامزہ نامی خاتون کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری دوستی بڑھ گئی اور ہم شادی کا فیصلہ کرچکے تھے لہذا ہم نے اپنے خاندانوں کو آگاہ کیا لیکن دونوں کے خاندانوں نے صاف انکار کیا جس کے بعد بابر اعظم اور میں نے کورٹ میرج کا فیصلہ کیا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2011 میں بابر اعظم مجھے کورٹ میرج کا کہہ کر میرے گھر سے بھگا کر لے گیا اور ہم مختلف مقامات پر کرائے کے مکانوں میں قیام پذیر رہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک مکان جس میں، میں رہائش پذیر تھی وہ گلبرگ میں ماڈل کالونی کی گلی نمبر 2 میں تھا اور دوسرا مکان پنجاب سوسائٹی ایچ بلاک ڈیفنس میں تھا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ اس دوران میں نے کئی مرتبہ بابر سے اصرار کیا کہ ہم شادی کرلیتے ہیں لیکن بابر اعظم نے مجھے ہمیشہ یہی کہا کہ ابھی حالات ٹھیک نہیں، تھوڑا وقت گزر جائے تو پھر ہم نکاح کرلیں گے۔
حامزہ نے کہا کہ 2014 سے پہلے نوکری کے ساتھ ساتھ میں نے اپنا سیلون کھولا، سیلون سے ہونے والی تمام آمدن میں بابر اعظم کو دیتی تھی اور ان کا کھانا پینا، کپڑے، رہائش اور کرکٹ کے تمام اخراجات میں برداشت کرتی رہی ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2014 میں جب بابر اعظم کا نام پاکستانی کرکٹ ٹیم میں آیا تو ان کا رویہ آہستہ آہستہ تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا جو مجھے نظر بھی آرہا تھا لیکن میرے حالات ایسے تھے کہ میں اپنے گھر واپس نہیں جاسکتی تھی کیونکہ بغاوت میں نے بھی کی تھی اور بابر اعظم نے بھی کی تھی۔
حامزہ کا کہنا تھا کہ میں 2016 میں حاملہ ہوگئی تھی جب میں نے بابر اعظم کو بتایا تو سن کر ان کا رویہ بہت عجیب ہوگیا، مجھے مارا پیٹا اور میں ان کے اصرار پر بے بس ہوگئی کیونکہ میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بابر اعظم مجھے بیگم کوٹ پر واقع ایک تنگ جگہ پر اسقاط حمل کے لیے لے کر گیا تھا، اس میں ان کے 2 دوست ملوث تھے، ایک کزن عبدالقادر کے بیٹے عثمان قادر اور ان کے چھوٹے بھائی سفیر اعظم بھی شامل تھے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ‘جب میں نے اپنے گھروالوں سے صلح کی اور اپنے گھر گئی تو دن بدن جیسے جیسے وہ عروج پر جارہا تھا اس کی ہوس بھی بڑھتی جارہی تھی، وہ میرے ساتھ وہ وہ تعلقات بناتا رہا جس کی اجازت نہ ہمارا قانون نہ مذہب دیتا ہے’۔
خاتون کا کہنا تھا کہ ‘اس دوران بابر اعظم بیوی کے طور پر مجھے چیک اپ کروانے لے کر جاتے رہے، میرے پاس کے شواہد موجود ہیں’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘بالآخر تنگ آکر 2017 میں، میں نے بابر اعظم کے خلاف پولیس رپورٹ کی اور شکایت دیکھنے والے افسر نے بابر اعظم کو پیش کرنے کا کہا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے تھے لیکن اسی رات بابر اعظم نے اس افسر کے سامنے ہمارے مشروط صلح نامے پر دستخط کروائے تھے، جس میں شرط یہ طے کی گئی تھی کہ بابر مجھ سے شادی کرلیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ’10 روز قبل میں نے ان کے خلاف دوبارہ شکایت درج کروائی، 20 نومبر کو بابراعظم نے بیرون ملک جانے سے قبل مجھے فون کرکے کہا تھا کہ اگر تم پولیس کے پاس گئی یا اب شادی کا مطالبہ کیا تو تم جان سے جاؤ گی اور تمہیں یہ بھی نہیں پتا کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا’۔
حامزہ کا کہنا تھا کہ ’10 سال تک حد سے زیادہ زیادتی کے بعد اب میں یہاں انصاف کے لیے آئی ہوں’۔
ایک سوال کے جواب میں متاثرہ خاتون نے دعوی کیا کہ ‘کرکٹ میچز کھیلنے کے دوران پی سی بی نے جہاں بابر اعظم کے لیے روم بُک کروائے اس کے ساتھ ہمیشہ میرا کمرا بُک ہوتا تھا’۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ ‘بابر اعظم پر میں نے کروڑوں روپے خرچ کیے، انہوں نے مجھ پر 70 لاکھ کا سُود کا بوجھ ڈالا جو میں نے ایک سال پہلے اتارا’۔
بابر اعظم کے خلاف مذکورہ الزامات کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔