ساہیوال واقعے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) کے سربراہ سید اعجاز شاہ کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے واقعے کی حتمی رپورٹ آج شام 5 بجے تک دینا ممکن نہیں۔
جے آئی ٹی سربراہ نے ممبران کے ہمراہ جائے وقوعہ کا دورہ کیا جہاں تین سے چار عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے گئے۔
اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے جے آئی ٹی سربراہ سید اعجاز شاہ نے کہا کہ واقعے کی ابتدائی رپورٹ دینا بھی ممکن نہیں، سائنٹیفک بنیادوں پر تفتیش کر کے حقائق معلوم کریں گے۔
جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ جب تک ساری چیزیں کلئیر نہ ہوجائیں اس وقت تک کچھ نہیں کہا جاسکتا، فائرنگ کرنے والے سی ٹی ڈی کے 6 اہلکار حراست میں ہیں جن کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں اور ابتدائی طور پر ہم شہادتیں اکٹھی کررہے ہیں۔
جے آئی ٹی سربراہ نے مزید کہا کہ ابتدائی شہادتوں اور لیبارٹری سے تجزیہ آنے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں گے اور لیبارٹری تجزیہ آنے کے بعد ہی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کریں گے۔
واقعے کے وقت موجود شہریوں نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے آنے سے پہلے کوئی اطلاع نہیں دی، واقعے کی جگہ درجنوں افراد موجود تھے اور صرف تین سے چار لوگوں کے بیانات لیے گئے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ساہیوال سانحے میں تحقیقات کے لئے مزید وقت دینے سے انکار کردیا اور کہا ہے کہ جے آئی ٹی ٹیم 5 بجے تک حتمی رپورٹ پیش کرے، پوری قوم تحقیقاتی ٹیم کی جانب دیکھ رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ انصاف کی راہ میں تاخیر نہیں چاہتے، تحقیقاتی ٹیم 72 گھنٹے میں سانحہ کی تہہ تک پہنچ سکتی ہے اور شام 5 بجے اجلاس بلا لیا ہے، حتمی رپورٹ کا خود جائزہ لوں گا۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی رپورٹ کے بعد ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
سانحہ ساہیوال پر اب بھی کئی سوال اپنی جگہ موجود ہیں کہ غلطی کس کی تھی؟ سی ٹی ڈی کی جانب سے بار بار بیانات تبدیل کیوں کیے گئے؟ گولیاں چلانے کے بجائے گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی؟ فرانزک ماہرین کی خدمات کیوں نہ لی گئیں اور کرائم سین کو بھی محفوظ کیوں نہیں رکھا گیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں اس قسم کے سوالات کا احاطہ بھی کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 19 جنوری کی سہہ پہر سی ٹی ڈی نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں میاں بیوی اور ان کی ایک بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے جب کہ کارروائی میں تین بچے بھی زخمی ہوئے۔
واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔