سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض عدالت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہوئے ان کی غیر مشروط معافی قبول کر لی۔
سابق چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے درمیان بزنس ڈیل معاملے پر کیس کی سماعت ہوئی۔
ملک ریاض کے وکیل ڈاکٹر باسط نے مؤقف اختیار کیا کہ توہین عدالت کے حوالے سے تحریری معافی نامہ جمع کرا دیا ہے۔ معافی نامہ کے متن کے مطابق عدلیہ کے خلاف پریس کانفرنس پر معذرت خواہ ہوں اور تہہ دل سے عدالت سے معافی چاہتا ہوں۔
متن کے مطابق میں اپنا علاج ملتوی کر کے عدالت میں پیش ہوا ہوں اور اپنے اقدام کا کوئی جواز پیش نہیں کرنا چاہتا۔ لہٰذا میری معافی قبول کی جائے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کا دوسرا معافی نامہ ہے اور پہلے معافی نامے کا متن بھی یہی تھا جب کہ اس مقدمے میں فرد جرم عائد ہو چکی ہے تاہم ابھی تک کوئی گواہی ریکارڈ نہیں ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر بنائے گئے کمیشن کے سامنے کوئی گواہی نہیں لائی گئی اور ارسلان افتخار نے گزشتہ سماعت پر اپنی درخواست واپس لے لی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ گزشتہ سات سال سے مقدمہ زیر التواء ہے۔ ملک ریاض کی پریس کانفرنس میں ایک فقرہ تھوڑا نہیں کافی قابل اعتراض تھا۔ پریس کانفرنس میں کہتے ہیں یہ آزاد نہیں یرغمال عدلیہ ہے اور اس کو ایک ڈان چلا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شعیب سڈل کمیشن کے سامنے کوئی پیش ہی نہیں ہوا اور نہ ہی کمیشن کے سامنے کوئی شہادت پیش کی گئی جب کہ صحافیوں نے ملک ریاض کو ان کے الفاظ پر توجہ دلائی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ معافی تو مانگ لی کیا عدلیہ پر الزامات بھی واپس لیتے ہیں ؟ عدلیہ کے بارے میں کہہ دیا کہ ڈان چلا رہا ہے۔
ملک ریاض کے وکیل ڈاکٹر باسط نے کہا کہ ہم اپنی غلطی کی معافی مانگ رہے ہیں جب کہ ملک ریاض لگائے گئے الزامات واپس لیتے ہیں۔ ملک ریاض اپنی سرجری چھوڑ کر آئے ہیں.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت بلائے تو آنا کوئی احسان نہیں ہے ۔الزام ارسلان افتخار پر لگا جب کہ سڈل کمیشن میں کوئی پیش نہیں ہوا۔
انہوں ںے کہا کہ اس مقدمے سے متعلق ساری کارروائی میں ملک ریاض کہتے رہے کہ وہ چیف جسٹس اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ملک ریاض نے گزشتہ سات سالوں میں عدلیہ کی کوئی اور توہین نہیں کی۔ اس لیے ثابت ہوتا ہے کہ ملک ریاض کی معافی نیک نیتی پر مبنی ہے جب کہ ملک ریاض نے ارسلان افتخار پر لگائے گئے تمام الزامات بھی واپس لے لیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کا مرتکب شخص کسی مرحلے پر بھی معافی مانگ سکتا ہے جب کہ ملک ریاض کی نیت پر شہبے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور عدالت معافی نامے سے مطمئن ہے۔
عدالت نے ملک ریاض کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہوئے ملک ریاض کو توہین عدالت کیس سے بری کر دیا جب کہ ملک ریاض کی غیر مشروط معافی بھی قبول کر لی۔