چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ مشرف ٹرائل کورٹ میں پیش ہوں یا اسکائپ پر بیان ریکارڈ کروائیں اور یہ سمجھ لیں کہ مشرف کا ٹرائل تو ہونا ہے کیوں کہ ٹرائل نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ کچھ لوگ قانون سے بالا تر ہیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے مشرف کا ٹرائل کورٹ میں پیش نہ ہونے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کبھی اسپتال چلے جاتے ہیں کبھی بیرون ملک، ملزم کی مرضی نہیں چلے گی، عدالت کے پاس انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آرٹیکل 187 کا خصوصی اختیار ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو جس طرح ڈیل کیا گیا وہ تاریخ کا ایک نیا باب ہے، پرویز مشرف ٹرائل کورٹ میں پیش ہوں یا اسکائپ پر بیان ریکارڈ کرائیں جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کا سیاسی کیرئیر ختم ہوچکا، پرویز مشرف بیمار ہیں عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے اور ملزم کا سکائپ پر بیان بھی ریکارڈ نہیں ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز مشرف پاک بھارت کشیدگی کے دوران بڑے اچھے بیانات دیتے رہے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو علاج کے لیے باہر جانا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کی وجہ سے دوسروں کے کیس پر اثر پڑتا ہے، پرویز مشرف بڑے مکے دکھاتے تھے، پرویز مشرف کہیں عدالت کو مکے دکھانا شروع نہ کر دیں، بہتر ہے عدالت کے سوالوں کا جواب ان کا وکیل جمع کروادے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ سمجھ لیں کہ مشرف کا ٹرائل تو ہونا ہے، ٹرائل نہ ہوا تو سمجھا جائے گا کہ کچھ لوگ قانون سے بالا تر ہیں، بڑا ہو یا چھوٹا ٹرائل کو ہائی جیک کوئی نہیں کرسکتا، برطانوی پارلیمنٹ نے آمر ہوری ویل کریمبل کا موت کے بعد ان کا ڈھانچہ نکال کر ٹرائل کیا۔ عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کسی نتیجہ پر نہ پہنچی تو یکم اپریل کو فیصلہ کریں گے۔