لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کی والدہ کی درخواست پر سندھ ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔
عزیر بلوچ کی والدہ نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے کہ ان کے بیٹے کو 12 اپریل 2017 سے ٹرائل کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جواب جمع نا کرانے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو گزشتہ سماعت پر جواب جمع کرانے کے لیے آخری مہلت دی گئی تھی۔
جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عزیر بلوچ کی حراست سے متعلق آرمی ہیڈ کوارٹر کو خط لکھا ہے مگر تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ عزیر بلوچ کو کہاں رکھا گیا ہے کیوں نہیں بتایا جارہا؟ احکامات کے باوجود کسی فریق نے جواب جمع نہیں کرایا۔
عدالت نے سیکرٹری دفاع کو 2 جنوری کو جواب پیش کرنے کے نوٹس بھی جاری کر دیے اور کہا کہ بتایا جائے عزیر بلوچ کو ٹرائل کورٹ میں کیوں پیش نہیں کیا جا رہا۔
واضح رہے کہ گذشتہ سماعت پر آئی جی جیل خانہ جات نے عدالت میں جواب جمع کرایا تھا۔ جیل حکام کے مطابق عزیر بلوچ 11 اپریل 2017 سے فوجی حکام کے پاس ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات کی رپورٹ کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں ملزم عزیر بلوچ کو میجر محمد فنین کے حوالے کیا گیا تھا ۔
درخواست گزار رضیہ بیگم کے مطابق جنوری 2016 میں عزیر بلوچ کی گرفتاری ظاہر کی گئی اور ملزم کے خلاف چالیس سے زائد مقدمات میں چالان پیش کیا گیا تاہم ملزم کو 12 اپریل 2017 کے بعد عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
رضیہ بیگم نے خدشہ ظاہر کیا کہ عزیر بلوچ کو لاپتا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کے بیٹے کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا جاۓ۔