سپریم کورٹ میں سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی براہ راست سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان بھی بنچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست پر گزشتہ سماعت کب ہوئی تھی جس پر وکیل حامد خان نے بتایا کہ آخری سماعت 13 جون 2022 کو ہوئی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس طارق، جسٹس اعجازالاحسن نے بنچ میں شمولیت سے انکار کیا، میں نے کسی کو بنچ سے نہیں ہٹایا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش ہوتی ہے اتفاق رائے یا جمہوری طریقے سے کمیٹی میں چلیں، موبائل اٹھا کر صحافی بننے والوں کو سوچنا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر پر فیصلہ آ چکا ہے
ملک میں جمہوریت آ رہی ہے تو عدلیہ میں بھی جمہوریت آ رہی ہے۔وکیل حامد خان نے کہا کہ جمہوریت اس وقت مشکل میں ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا حکومت درخواست کی مخالفت کرے گی؟ وفاقی حکومت کے وکیل نے شوکت عزیز صدیقی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا۔
چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا کہ گر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو اُسے پارٹی تو بنائیں، اگر آپ کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو اتنا تو ہونا چاہیے کہ ہم انہیں بھی سُنیں۔ اگر آپ شخصیات پر الزام لگا رہے ہیں تو ان کو آپ نے پارٹی کیوں نہیں بنایا؟ ہوسکتا ہے وہ آ کر مان لے اور ہوسکتا ہے وہ آکر اپنا کوئی مؤقف پیش کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تباہی یہ ہے کہ ہم شخصیات کو برا نہیں کہتے اور ادارے کو برا کہتے ہیں، ادارے تو وہی رہتے ہیں، ادارے کو لوگ چلاتے ہیں۔ ادارے نہیں لوگ برے ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔ شوکت عزیز صدیقی کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔