سپریم کورٹ کی جانب سے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف کیس میں فیض حمید اور دیگر افراد کو فریق بنانے کی مہلت ملنے کے بعد شوکت عزیز صدیقی نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر فریقین کے نام شامل کرکے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروادی۔
سابق جج کی جانب سے جمع کروائی گئی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فریق بنایا جائے۔
شوکت عزیز صدیقی نے اپنی درخواست میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے، بریگیڈیئر ریٹائرڈ فیصل مروت، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی فریق بنانے کی استدعا کی ہے۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تبدیلی پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بینچ سے کسی کو نہیں ہٹایا، بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے، آج کل جمہوریت کا زمانہ ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا اس وقت جمہوریت مشکل حالات میں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کی معاونت درکار رہے گی، جمہوریت چلتی رہے گی، آپ نے اسے آگے لے کر چلنا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کیا شوکت عزیز صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا فی البدیہہ تقریر تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟
وکیل حامد خان نے کہا لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، ایک بریگیڈیئر کے ساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا ؟جس پر حامد خان نے کہا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا۔ چیف جسٹس نے کہا یا تو کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر انہیں فریق بنائیں۔