سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف اپیل منظور کرتے ہوئے دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے اگر وہ باہر گیا ہے تو یہ دفتر خارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا، سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا۔
وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا اس پر بریفنگ دیتی ہے، وزارت خارجہ سائفر سے متعلق حکومت کو آگاہ کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ حساس معلومات باہر کسی کو نہ جا سکیں جبکہ جسٹس سردار طارق نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیر خارجہ خود سمجھدار تھا، سمجھتا تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، وزیر خارجہ نے سائفر کا کہا کہ بتا نہیں سکتا اور عمران خان کو پھنسا دیا کہ آپ جانیں اور عمران جانے، خود بچ گئے اور عمران کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔
سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا، قائمقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔
وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں، جس پر قائم قام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ان کیمرا ٹرائل کے خلاف آج ہائی کورٹ میں بھی سماعت ہے جب کہ وکیل حامد خان نے بتایا کہ دوسری درخواست فرد جرم کے خلاف ہے۔ قائمقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے، نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا، وکیل حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی، قائمقام چیف جسٹس نے کہا کہ پرانی چارج شیٹ کے خلاف درخواست غیرموثر ہوچکی ہے، نئی فرد جرم پر اعتراض ہے تو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں۔
وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ مناسب ہوگا آج ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایسا نہ ہو آئندہ سماعت تک ٹرائل مکمل ہوجائے۔ وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شام چھ بجے تک ٹرائل چلتا ہے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدالتی اوقات کار کے بعد بھی ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔ قائمقام چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس چلتے نہیں، آپ کا چل رہا تو آپکو اعتراض ہے، فرد جرم والی درخواست غیرموثر ہونے پر نمٹا دیتے ہیں۔