معروف شاعر جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 17 برس بیت گئے۔
منفرد اسلوب اور دھیمے لب و لہجے کا تعارف رکھنے والے جون ایلیا نے اردو ادب کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا۔ 14 دسمبر سن 1931ء کو بھارتی شہر امروہہ میں پید ا ہونے والے جون ایلیا کو، انگریزی،عربی اور فارسی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔
ان کا پہلا شاعری مجموعہ شائد، 1991ء میں شائع ہوا۔ اردو ادب میں جون ایلیا کے نثر اور اداریے کو باکمال تصور کیا جاتا ہے۔ جون ایلیا کے شعری مجموعوں میں، یعنی، گمان، لیکن، گویا اور امور شامل ہیں۔
جون ایلیا کی بیشتر تصانیف کو عوامی پذیرائی ملی جس میں فمود کے نام سے مضامین کی تصنیف بھی قابل ذکر ہے۔ الگ تھلگ نقطہ نظر اور غیر معمولی عملی قابلیت کی بناء پر جون ایلیا ادبی حلقوں میں ایک علیحدہ مقام رکھتے تھے۔ ادبی حلقوں میں جون ایلیا اپنی نوعیت کے منفرد شاعر تھے۔
ادب سے جڑے شعراء کا ماننا ہے کہ جون اپنی منفرد شاعری میں اکیلے تھے، انھوں نے انگاروں پر چل کر شاعری کی، شعراء کے مطابق جون ایلیا ان نمایاں افراد میں شامل تھے جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد جدید غزل کو فروغ دیا، شعرا کرام جون ایلیا کو میر اور مصحفی کے قبیل کا آدمی قراردیتے ہیں۔
جون ایلیا کی شاعری کو معاشرے اور روایات سے کھلی بغاوت سے بھی عبارت کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے ان کی شاعری دیگر شعراء سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔
انھیں معاشرے سے ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ شاعر کو وہ عزت و توقیر نہیں دی جاتی جس کا وہ حق دار ہے۔ اردو ادب کی دنیا میں الگ شناخت رکھنے والے جون ایلیا 8 نومبر سن 2002ء کو انتقال کرگئے تھے۔