پاکستان میں دماغی اور اعصابی امراض کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے، مگر ان بیماریوں کے ماہرین کی شدید قلت نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں نوجوانوں کی آبادی کا تقریباً 15 فیصد کسی نہ کسی دماغی بیماری کا شکار ہے، جب کہ مجموعی طور پر 24 کروڑ کی آبادی میں سے کم از کم ڈھائی کروڑ افراد ان امراض میں مبتلا ہیں۔
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیورولوجسٹ ڈاکٹر محمد واسع نے انکشاف کیا کہ پاکستان بھر میں صرف 400 کے قریب نیورولوجسٹ موجود ہیں، جو بڑھتی ہوئی مریضوں کی تعداد کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف پھیپھڑے ہی نہیں بلکہ دماغ بھی فضائی آلودگی سے متاثر ہوتا ہے، اور اس کے اثرات اب واضح طور پر سامنے آ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں دماغی بیماریوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ضلعی اسپتالوں اور بنیادی صحت مراکز میں ان بیماریوں کے علاج یا تشخیص کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ اس انفرااسٹرکچر کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہزاروں مریض بروقت علاج سے محروم رہتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر 43 فیصد افراد کسی نہ کسی نیورولوجیکل بیماری کا شکار ہیں، جب کہ سندھ میں ہر تیسرا شخص دماغی یا ذہنی بیماری میں مبتلا ہے۔ ان بیماریوں میں ڈپریشن، ذہنی دباؤ، فالج اور دیگر اعصابی مسائل شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں فالج کی بیماری میں گزشتہ 10 برسوں کے دوران دوگنا اضافہ ہو چکا ہے، اور اب سالانہ ساڑھے 4 لاکھ افراد فالج کا شکار ہو رہے ہیں، جن میں سے بڑی تعداد مستقل معذوری کا سامنا کر رہی ہے۔
ماہرینِ اعصاب نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہر ضلعی اسپتال میں سی ٹی اسکین، ایم آر آئی، ادویات اور نیورولوجسٹ کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے تاکہ دماغی امراض کی بروقت تشخیص اور علاج ممکن ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دماغی صحت کا بحران سنگین تر ہو جائے گا۔