وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے گلیشیئرز کا تحفظ نہایت اہم ہے کیونکہ ملک کی پانی کی فراہمی بڑی حد تک انہی پر انحصار کرتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان اپنے حصے کے پانی پر کوئی سمجھوتہ کرے گانہ ہی بھارت کوریڈ لائن کراس کرنے دے گا۔
یہ بات انہوں نے دوشنبے، تاجکستان میں گلیشیئرز کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس (آئی جی سی پی 2025) سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعظم نے کانفرنس کے انعقاد پر تاجک صدر کو مبارکباد پیش کی اور گلیشیئرز کے موضوع پر ان کی جامع گفتگو کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ پولر ریجنز کے بعد پاکستان وہ ملک ہے جہاں دنیا کے سب سے زیادہ گلیشیئرز پائے جاتے ہیں، جن کی تعداد 13 ہزار سے زائد ہے۔
شہباز شریف نے بتایا کہ پاکستان کے پانی کا تقریباً نصف حصہ گلیشیئرز سے حاصل ہوتا ہے، انڈس ریور سسٹم ملک کی معیشت، تہذیب اور ثقافت کی بنیاد ہے، جبکہ پانچوں بڑے دریا گلیشیئرز کی بدولت ہی رواں دواں ہیں۔ انہوں نے 2022 میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے تباہ کن سیلاب کا حوالہ دیا جس میں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، ہزاروں گھر اجڑ گئے اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔
وزیراعظم نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان کا دنیا میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ نصف فیصد سے بھی کم ہے، مگر یہ دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایکو سسٹم بھی متاثر ہو رہا ہے، جس سے جنگلی حیات، زراعت اور انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ شہباز شریف نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک میں ارلی وارننگ سسٹمز، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور دیگر ماحولیاتی اقدامات میں سرمایہ کاری کریں تاکہ مستقبل میں ممکنہ تباہیوں سے بچا جا سکے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کرنے کی کوششوں کی شدید مذمت کی اور واضح کیا کہ پاکستان اس معاملے پر کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔
آخر میں وزیراعظم نے زور دیا کہ گلیشیئرز کے تحفظ کو ہر قیمت پر یقینی بنانا ہوگا اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اپنے ماحولیاتی وعدوں پر فوری عملدرآمد کرے۔