بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس نے وزیرِاعظم نریندر مودی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی کی ناکام سفارتی پالیسیوں نے بھارت کو عالمی طاقتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس عمل نے ملک کی خودمختاری کو سنگین خطرات میں ڈال دیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی خارجہ حکمت عملی کمزور، انحصار پسند اور عالمی دباؤ کے سامنے جھکنے والی پالیسی میں تبدیل ہوچکی ہے۔
کانگریس رہنما جے رام رمیش نے الزام عائد کیا کہ مودی حکومت کے فیصلے ملکی سطح پر اعلان ہونے سے پہلے ہی بیرون ملک سامنے آ جاتے ہیں، جو اس کمزور خارجہ پالیسی کو عیاں کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خود انکشاف کیا کہ نریندر مودی نے روسی تیل کی درآمد روکنے کی یقین دہانی کروائی تھی، جبکہ بھارتی حکومت نے اس انکشاف پر کوئی باضابطہ ردعمل یا وضاحت پیش نہیں کی۔
جے رام رمیش نے مزید کہا کہ “مودی قومی پالیسیاں چھپاتے ہیں مگر ٹرمپ ان کا اعلان کرتے ہیں”۔ انہوں نے یاد دلایا کہ “ٹرمپ نے حکومت کے سرکاری اعلان سے پہلے ہی آپریشن سندور کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا تھا، جو مودی حکومت کی کمزوری اور بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔”
کانگریس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی کا کوالالمپور سمٹ اور غزہ کانفرنس میں شرکت سے گریز اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ امریکی دباؤ، خاص طور پر ٹرمپ کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق مودی کی یہ پالیسی بھارت کو عالمی مفادات کے تابع کر رہی ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں نے مودی کو مفاد پرست قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ “ملک کی خودمختاری کو داؤ پر لگا کر اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی کا “وشو گرو” (دنیا کا استاد) بننے کا خواب عالمی طاقتوں کے سامنے جھکنے سے چکنا چور ہو چکا ہے اور عالمی سطح پر بھارت کی خودمختاری پر سوال اٹھ چکے ہیں۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیوں نے بھارت کی سفارتی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور دنیا بھر میں بھارت کی “نام نہاد خودمختاری” کے دعووں کا پردہ فاش ہو گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ رجحان جاری رہا تو بھارت کو عالمی سطح پر مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔