کراچی:جامعہ کراچی کی 12 رکنی ان فیئر مینز کمیٹی نے مسٹر طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی سند کے کیس کی سمری جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ کو جو سمری بھیجی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ مسٹر طارق محمود جہانگیری کے دو انرولمنٹ نمبر تھے، انھوں نے دوران امتحان غیر منصفانہ ذرائع استعمال کئے جس پر ان کا نتیجہ منسوخ کرکے انھیں تین برس کے لیے امتحانات میں شریک ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
کمیٹی کا اجلاس ہفتہ 17؍ اگست 2024ء کو شعبہ امتحانات میں منعقد کیا گیا تھا جس میں کمیٹی کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر مسرت، رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر وحید، ڈین آف اسلامک اسٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہد، ڈین فارمیسی پروفیسر ڈاکٹر حارث، ڈین آف میڈیسن پروفیسر فرید اسلام، ڈین آف ایجوکیشن پروفیسر ڈاکٹر ایس شگفتہ شہزادی، مشیر امور طلبہ ڈاکٹر نوشین، پرووسٹ گرلز ہاسٹل ڈاکٹر ثمینہ، پرووسٹ بوائز ہاسٹل ڈاکٹر مصطفیٰ، پرنسپل، پروفیسر نعیم خالد، ڈائریکٹر، ایس جی، سی اینڈ پلیسمنٹ ڈاکٹر غزل خواجہ اور ناظم امتحانات سید ظفر رضوی نے شرکت کی تھی۔
سمری میں کہا گیا تھا کہ مسٹر طارق محمود پہلی بار طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کے نام سے 1988 میں LLB پارٹ 1 میں انرولمنٹ نمبر 4407/82 کے سالانہ امتحانات میں شریک ہوئے جس کی سیٹ نمبر 3668 تھی لیکن غیر منصفانہ ذرائع استعمال کرنے کی بنیاد پر انہیں 21 دسمبر 1988 کے پارٹ 1 کے پیپر III میں UFM قرار دیا گیا۔ مزید برآں، یہ انرولمنٹ نمبر ( 4407/82) نعیم الدین ولد معین الدین کو پہلے ہی الاٹ کیا جاچکا تھا جو گورنمنٹ اسلامیہ لاء کالج کا باقاعدہ طالب علم تھا اور اس کا 1982/83 کے سیشن میں داخلہ نمبر A/262 کے تحت کالج میں داخل ہوا تھا۔
مذکورہ امیدوار دوسری بار طارق جہانگیری ولد محمد اکرم کے نام کے ساتھ 1989 میں ایل ایل بی پارٹ 1 کے سالانہ امتحانات میں شریک ہوا جس کا انرولمنٹ نمبر 5968 اور سیٹ نمبر 4069 تھا۔
یہ انرولمنٹ نمبر (5968/87) جو پہلے ہی امتیاز احمد ولد محمد الٰہی کو جاری کیا جاچکا اور وہ اسی امتحان میں سیٹ نمبر 2474کے ساتھ بطور سابق ریگولر طالب علم کی حیثیت سے شریک ہوا تھا۔
امتیاز الہی گورنمنٹ اسلامیہ لاء کالج کا ریگولر طالب علم تھا جس نے 88-1987 کے سیشن میں داخلہ نمبر A/281 کے ذریعے کالج میں داخلہ لیا تھا-
طارق محمود تیسری بار طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کے نام کے ساتھ 1991 میں ایل ایل بی پارٹ 2 کے سالانہ امتحان میں ایک اور نئے انرولمنٹ نمبر 7124/87 پر سیٹ نمبر 22857 کے ساتھ شریک ہوئے۔
سمری میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل لیگل ایجوکیشن رولز 1978 کے مطابق، یہ ایک لازمی شرط ہے کہ قانون کے طلباء کو کم از کم 75 فیصد حاضری کے ساتھ کسی الحاق شدہ اور تسلیم شدہ لاء کالج میں باقاعدگی سے شرکت کرنی چاہیے۔
طارق محمود جہانگیری نے دعویٰ کیا کہ وہ اسلامیہ لاء کالج کراچی کے باقاعدہ طالب علم ہیں جب کہ اسلامیہ لاء کالج کراچی کے پرنسپل کے خط کی روشنی اور ریکارڈ کے مطابق، طارق محمود (جہانگیری) 1982 سے 1991 تک کبھی بھی گورنمنٹ اسلامیہ لاء کالج کے طالب علم نہیں رہے۔
ایل ایل بی کے جامعہ کراچی کے ٹیبلیشن رجسٹر کے مطابق سال اول کے سالانہ امتحان 1988 ( 1998-12-17) کے ریکارڈ کے مطابق طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم جس کا انرولمنٹ نمبر 4407/82 سیٹ نمبر 3668 ہے، پرچہ I، IV, V,VI میں شریک ہوئے۔
وہ پرچہ II میں غیر حاضر رہا اور پرچہ III میں انھیں UFM قرار دیا گیا۔ ان کا دو بار نتیجہ روک لیا (WH) گیا اور حاشیہ لگا کر انھیں UFM قرار دیا گیا۔
گورنمنٹ اسلامیہ لاء کالج کے طالب علموں کے ایل ایل بی کے سال اول کے امتحان 1988 میں نشستوں کے مطابق پتہ چلتا ہے کہ سیٹ نمبر 3668 طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کو انرولمنٹ نمبر AIL-4407/82 کے ساتھ تفویض کیا گیا تھا، تاہم، نتیجہ روک دیا گیا تھا جیسا کہ اندراج نمبر کو سرخ پنسل سے گھیرے ہوئے اور نوٹیشن “WH (روک لیا گیا) سے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید برآں، “UFM” بھی ٹیبولیشن رجسٹر کے صفحہ 203 پر مذکورہ سیٹ نمبر کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
جامعہ کراچی (شعبہ امتحانات) کے 1989-12-13 کے نا اہلی کے سرکلر نمبر 88 کے مطابق طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم سمیت 61 طلباء کے نتائج منسوخ کر دیے گئے اور انہیں مزید کسی بھی امتحان میں شرکت سے روک دیا گیا۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے سیریل نمبر 14 پر، طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم، جن کی سیٹ نمبر 3668 گورنمنٹ اسلامیہ لاء کالج کی تھی، کو جرمانہ عائد کیا گیا تھا اور ان کا نتیجہ منسوخ کر کے مزید تین سال کے لیے امتحانات میں شرکت سے روک دیا گیا اور انھیں سالانہ امتحان 1992ء میں شرکت کی اجازت دی گئی۔
مذکورہ شخص/امیدوار طارق محمود کی بحالی کے لیے کمیٹی کے سامنے کوئی دستاویز نہیں رکھی گئی۔ لہٰذا کمیٹی کا خیال ہے کہ دستیاب حقائق اور نتائج کی بنیاد پر ان سفارشات کو مزید فیصلے کے لیے سنڈیکیٹ کو بھیجا جا سکتا ہے۔سمری میں تنویر احمد ولد محمد الیاس، سید ارشد اقبال ولد سید محمد اقبال، طارق احمد لودھی ولد تبارک خان،سید شہزاد احمد ولد سید محمد عارف کا بھی ذکر کیا گیا جن کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ اسلامیہ لاء کالج کے طالبعلم نہیں تھے اور نہ ہی انھیں داخلہ دیا گیا۔