سپریم کورٹ نے حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم بحال کر دیں۔ عدالت نے 3رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ 5 صفر سے سناتے ہوئے نیب ترامیم بحال کر دیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان ثابت نہیں کرسکے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹ بھی لکھا، جسٹس اطہرمن اللہ نے وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل مسترد کی، جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ 3رکنی بینچ کا فیصلہ ثابت نہیں کر سکا کہ نیب ترامیم آئین سے متصادم تھیں،حکومت اور متاثرہ فریقین کی جانب سے 2،2انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی گئی تھیں،زوہیر احمد اور زاہد عمران نے متاثرہ فریق کے طور پر انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو جب بھی ممکن ہو قانون سازی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کیلئے گیٹ کیپرکا کردارادا نہیں کرسکتی، چیف جسٹس اورججز پارلیمنٹ کیلئے گیٹ کیپر نہیں ہوسکتے، عدالت نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا جائے گا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ تھے۔
واضح رہے کہ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں نیب ترامیم منظور کی گئی تھیں۔ نیب قوانین کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 14, 15, 21, 23، 25 اور 26 میں ترامیم کی گئی تھیں۔نیب ترامیم کے خلاف بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 15 ستمبر 2023 کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔