اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواستوں کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ جاری کیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر عدالتی فیصلے کو دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل بینچ نے سنایا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نظرثانی صرف اسی وقت ممکن ہے جب فیصلے میں کوئی واضح قانونی یا تکنیکی غلطی ہو۔ اگر کسی فریق کو فیصلہ پسند نہ آئے تو یہ نظرثانی کی وجہ نہیں بن سکتی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ دلائل جو پہلے مقدمے میں رد ہو چکے ہوں، انہیں دوبارہ نظرثانی میں لانا قابلِ قبول نہیں۔
عدالت نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھر میں لاکھوں مقدمات زیرِ التوا ہیں اور صرف سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد کیسز زیر سماعت ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد غیر ضروری نظرثانی درخواستوں کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایسے مقدمات عدالتی وقت کا ضیاع ہیں اور ان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
دوسری جانب، آج سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں کی سماعت ہو رہی ہے۔ یہ وہی نشستیں ہیں جن پر عدالت نے جولائی 2023 میں پی ٹی آئی کو نمائندگی دینے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
اس کیس کی سماعت 13 ججوں پر مشتمل فل کورٹ بنچ کرے گا، جس کی سربراہی جسٹس سید امین الدین خان کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ، جنہوں نے اصل فیصلہ تحریر کیا تھا، اس بار سماعت کا حصہ نہیں ہیں۔