سندھ میں ڈینگی بخار کی صورتحال مسلسل بگڑتی جا رہی ہے، کیونکہ محکمۂ صحت نے منگل کے روز مزید چار مریضوں کی موت کی تصدیق کی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں ڈینگی سے جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 20 تک پہنچ گئی ہے، جن میں سے چار اموات صرف گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ریکارڈ کی گئیں، جبکہ اسی مدت میں 1200 سے زائد نئے مریض بھی سامنے آئے ہیں، جو صورتِ حال کی شدت کو واضح کرتے ہیں۔
اگرچہ محکمۂ صحت کی جانب سے 20 اموات کی باضابطہ تصدیق کی گئی ہے، لیکن غیر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد میں ہلاکتوں کی اصل تعداد سرکاری ڈیٹا سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں مجموعی طور پر سندھ میں 13 اموات رپورٹ ہوئیں، جن میں حیدرآباد میں 4، ٹنڈو محمد خان میں ایک، کورنگی میں ایک، ملیر میں تین، کراچی شرقی میں دو اور کراچی غربی میں دو مریض شامل تھے۔
نومبر کے دوران اب تک سات مزید مریض جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے پانچ کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ایک موت ٹنڈو اللہ یار میں ہوئی جبکہ ایک مریض کراچی کے ضلع کیماڑی میں انتقال کر گیا۔
صوبائی سیکریٹری صحت ریحان بلوچ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ ان مریضوں میں سے کئی پہلے ہی پیچیدہ اور سنگین بیماریوں کا شکار تھے، جس کے باعث ڈینگی کی شدت ان پر زیادہ اثر انداز ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ تمام اموات کا ہسپتالوں کی کمیٹیوں نے تفصیلی جائزہ لیا، اور تمام ضروری تحقیقات کے بعد ہی ڈینگی کو موت کا بنیادی سبب قرار دیا گیا۔ ریحان بلوچ نے عوام سے اپیل کی کہ وہ غیر تصدیق شدہ خبروں اور افواہوں پر یقین نہ کریں۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ بین الاقوامی سطح پر ڈینگی وائرس میں ایک نئی تبدیلی سامنے آئی ہے، جو بعض کیسز میں بیماری کی شدت بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ ان کے مطابق ڈینگی ریسپانس سیل مکمل طور پر فعال ہے، ٹیمیں فیلڈ میں مسلسل کام کر رہی ہیں، اور ہسپتالوں میں گنجائش بڑھانے کے اقدامات جاری ہیں۔
محکمۂ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مچھر کش مہمات، اسپرے اور عوامی آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے مطابق زیادہ تر طبی پیچیدگیاں خود سے دوائیں لینے، غلط ادویات استعمال کرنے اور جسم میں پانی کی کمی کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ عام ادویات جیسے مخصوص دردکش اور اینٹی بایوٹکس پلیٹ لیٹس کی تعداد کم کر کے مریض کی حالت مزید بگاڑ سکتی ہیں۔
ڈینگی، جو کہ ایڈیِس ایجپٹائی مچھر کے ذریعے پھیلنے والا وائرس ہے، سندھ میں ہر سال صحت عامہ کے سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جراثیم کش اسپرے میں کمی، بارشوں کے بعد کھڑے پانی کی فوری نکاسی نہ ہونا اور ناقص صفائی اس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات ہیں۔
زیادہ تر مریضوں میں ڈینگی کی ابتدائی علامات یا تو بہت ہلکی ہوتی ہیں یا بالکل ظاہر نہیں ہوتیں، جس کے باعث کئی افراد کو شروع میں بیماری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ زیادہ تر کیسز میں مریض ایک سے دو ہفتوں کے اندر خود ہی صحت یاب ہو جاتے ہیں، تاہم بعض مریضوں میں واضح علامات بھی سامنے آتی ہیں جن میں اچانک تیز بخار، شدید نوعیت کا سر درد، آنکھوں کے پیچھے تک پھیلنے والا درد، پٹھوں اور جوڑوں میں کھنچاؤ یا تکلیف، متلی اور الٹی کی کیفیت، اور جلد پر ہلکی خارش یا دانے نمودار ہونا شامل ہو سکتا ہے۔ یہ تمام علامات وائرس کے جسم میں بڑھنے اور مدافعتی نظام کے ردِعمل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔