اسلام آباد سپریم کورٹ نے ذوالفقار بھٹو پر صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا، آئندہ سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک کرتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ذوالفقاربھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔
سماعت کے بعد چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس ریفرنس کی کئی سماعت ہوئیں بدقسمتی سے حتمی شکل نہیں دی گئی، ریفرنس پر سماعت آخری بار 12نومبر2012کو فکس کی گئی لیکن سماعت نہیں ہوسکتی، ذوالفقار بھٹو کے نواسےبلاول نےفاروق ایچ نائیک کےذریعےفریق بننےکی درخواست دی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ذوالفقارعلی بھٹو کے بچے زندہ ہیں ؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ایک بیٹی ہے جو لندن میں ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے نواسے دیگر اہلخانہ کی طرف سے آئے ہیں، اگر کوئی اور بھی آنا چاہے تو عدالت فریق بنائے گی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک نے کیس کی براہ راست نشرکی درخواست دی جو قبول کی گئی، کیس پہلے سے ہی براہ راست دکھایاجارہاہے تو درخواست کو خارج کررہےہیں ،مخدوم علی خان کےجونیئر وکیل نے بتایا ہےکہ وہ معاونت کےلئے تیار ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا، آخری بار ریفرنس 2012 میں سناگیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنانہیں گیا اور زیر التوا رہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کرکے جواب لیا جائے گا، آئینی معاملات پر عدالتی معاونت کیلئے رضاربانی سےدرخواست کریں گے اور سلمان صفدر کو فوجداری معاملات پر معاونت کیلئے بلایا جائے گا، کسی اور معاملے پر کوئی عدالت کی معاونت کرناچاہے تو تعاون کریں گے۔
حکم نامے میں کہنا تھا کہ جسٹس دراب پٹیل کا بھی انٹرویو سنا ہے ، جی ہم دراب پٹیل کےانٹرویو کا ٹرانسکرپٹ ،ویڈیوبھی فراہم کر دیں گے اور جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کے مکمل ریکارڈکیلئےمتعلقہ چینل کو لکھا جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک نےبلاول بھٹو کی جانب سے فریق بننےکی درخواست دی، فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں، عدالت کو بتایا گیا کہ ذوالفقار بھٹو کے 8پوتےپوتیاں،نواسے نواسیاں ہیں، ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کر سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئینی معاملات اور کریمنل معاملات پر بھی ماہرمعاون مقررکر دیتےہیں ، جسٹس (ر)منظور ملک کو عدالتی معاون بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، خواجہ حارث،خالد جاوید ،سلمان صفدر کو بھی عدالتی معاون بنالیتےہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کسی کو ان معاونین پراعتراض ہے؟ احمد رضا قصوری نے رضا ربانی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی معاونین نیوٹرل ہونے چاہئیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صلاح الدین،زاہد ابراہیم،فیصل صدیقی بھی معاون ہوسکتے ہیں۔