معروف پاکستانی اداکارہ عائشہ خان کی تنہائی میں وفات اور کئی روز بعد ان کے فلیٹ سے لاش ملنے کے واقعے نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی ہے، جہاں ان کے بچوں پر غفلت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اسی تناظر میں سینیئر اداکارہ بشریٰ انصاری نے ایک مختصر ویڈیو پیغام میں اہم حقائق بیان کیے ہیں۔
انسٹاگرام پر جاری ویڈیو میں بشریٰ انصاری نے عائشہ خان کے ساتھ ذاتی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کچھ دنوں سے ان کی وفات کے بارے میں سن کر بہت افسوس ہو رہا ہے اور کچھ شرمندگی بھی ہے کہ ہم نے ان کا حال احوال کیوں نہ پوچھا۔
بشریٰ انصاری نے وضاحت کی کہ ان کا عائشہ خان کے ہاں آنا جانا نہیں تھا، ملاقاتیں کبھی کبھار ہی ہوتی تھیں، اور زیادہ کام بھی اکٹھے نہیں کیا تھا، لیکن وہ ایک نہایت باوقار اور پیاری شخصیت کی مالک تھیں۔
اداکارہ نے بتایا کہ “جو باتیں اس وقت ان کے بارے میں کی جا رہی ہیں، وہ سن کر حیرت ہوتی ہے۔ لوگ ویلاگز اور فوٹیجز بنانے کے چکر میں ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں جو حقیقت سے دور ہیں۔”
بشریٰ انصاری نے ماضی کی ایک گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پانچ چھ سال قبل انہوں نے عائشہ خان سے پوچھا تھا کہ ان کے بچے کہاں ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ ایک بچہ سنگاپور میں ہے اور باقی کہیں اور۔ جب پوچھا گیا کہ آپ ان کے پاس جاتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ بلاتے ضرور ہیں، مگر وہاں دل نہیں لگتا کیونکہ بچوں کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں، جس سے بیزاری محسوس ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے بچوں کے اخراجات سے متعلق بھی پوچھا، تو عائشہ خان نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ بچے درازوں میں پیسے رکھ جاتے ہیں، اور وہ ان باتوں پر خوش تھیں۔ وہ بتاتی تھیں کہ کتابیں پڑھتی ہیں، موسیقی سنتی ہیں، عبادت کرتی ہیں اور ان کے ہمسائے رشتہ داروں سے زیادہ خیال رکھتے ہیں، ایک کام والی بھی آتی ہے جو کھانا بناتی ہے. وہ اپنی زندگی سے مطمئن اور خوش تھیں۔
بشریٰ انصاری نے تنقید کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ باتیں مجھے خود عائشہ آپا نے بتائی تھیں، اس لیے براہِ کرم ان کے بچوں پر الزام نہ لگائیں۔ تہمت لگانا گناہ ہے، اور جیسا نظر آتا ہے، ویسا ہوتا نہیں۔ ہو سکتا ہے ان کے بچے بھی ذہنی اذیت سے گزر رہے ہوں۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عائشہ خان کی چھ سات بہنیں تھیں، جن میں سے خالدہ ریاست کا انتقال ہو چکا ہے اور باقی کہاں ہیں، انہیں معلوم نہیں، لیکن خاندان کو ان کی خبر ضرور رکھنی چاہیے تھی — یہاں تھوڑی کوتاہی ضرور ہوئی۔
ساتھ ہی انہوں نے لاش کے ایک ہفتے بعد ملنے سے متعلق رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’’میرا نہیں خیال کہ ایک ہفتہ ہوا ہو گا، ہو سکتا ہے دو چار دن ہوئے ہوں، بچے مصروف رہے ہوں، اور انہیں لگا ہو کہ کل ہی امی سے بات ہوئی تھی۔‘‘
بشریٰ انصاری نے گفتگو کا اختتام ان الفاظ پر کیا: ’’براہِ کرم ان کے بچوں کو پریشان نہ کریں، اس سے ان کی روح کو بھی تکلیف ہوگی۔ ان کے لیے دعائے مغفرت کریں، وہ ایک تعلیم یافتہ، باوقار اور مہذب خاتون تھیں، ان پر کسمپرسی جیسے الفاظ استعمال کرنا زیب نہیں دیتا۔ انہیں سکون سے جینے دیں، اور اب سکون سے جانے بھی دیں۔‘‘
یاد رہے کہ جون میں عائشہ خان کی لاش کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ان کے فلیٹ سے ملی تھی۔ وہ تنہا رہتی تھیں، اور تعفن پھیلنے پر پڑوسیوں نے رشتہ داروں کو اطلاع دی، جس کے بعد پولیس نے لاش برآمد کی۔ پولیس کے مطابق لاش کئی دن پرانی تھی۔