انتہا پسند بھارتی حکومت نے مسلمانوں کے بنیادی مذہبی حق کو نشانہ بناتے ہوئے ممبئی میں لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے اذان دینے پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ ممبئی پولیس کمشنر دیون بھارتی نے فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ شہر بھر سے 1,500 سے زائد لاؤڈ اسپیکرز ہٹا دیے گئے ہیں، جس کے بعد ممبئی اب “لاؤڈ اسپیکرز سے آزاد” ہو چکا ہے۔
یہ ظالمانہ اقدام رواں سال جنوری میں بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد کیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ “لاؤڈ اسپیکرز کا استعمال کسی بھی مذہب کا لازمی حصہ نہیں”۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ دو ہاؤسنگ ایسوسی ایشنز کی درخواست پر کیا گیا تھا جنہوں نے مساجد میں اذان کو “شور” قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اب صرف مذہبی تہواروں کے دوران ہی عارضی طور پر لاؤڈ اسپیکرز کے استعمال کی اجازت ہوگی۔ اس اقدام نے ممبئی کے مسلمانوں کو ان کے بنیادی مذہبی حق سے محروم کر دیا ہے، جبکہ شہر میں ہندوؤں کے مندروں میں ہونے والے بھجن اور دیگر مذہبی تقریبات پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
یہ اقدام درحقیقت بھارت میں مسلم دشمنی کی بڑھتی ہوئی لہر کا ایک اور شاخسانہ ہے، جہاں حکومت مسلمانوں کے مذہبی حقوق کو مسلسل پامال کر رہی ہے۔ ممبئی کے مسلمان اب ڈیجیٹل اذان ایپس کے ذریعے اپنی مذہبی عبادت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پانچ مسلم مذہبی اداروں نے ہائی کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے، لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسند حکومت کے ماحول میں انہیں انصاف ملنے کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں۔ یہ اقدام درحقیقت بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کی ایک اور کڑی ہے۔