پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارتی شراکت داری اب محض اقتصادی تعاون سے آگے بڑھ کر ایک مضبوط معاشی تعلق کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور اشتراک کی بحالی کا واضح مظہر ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اور یو اے ای کے درمیان دو طرفہ تجارت میں 20.24 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد تجارتی حجم بڑھ کر 10.1 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ یہ پیشرفت اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) کی پالیسیوں اور اقدامات کی بدولت ممکن ہوئی ہے، جنہوں نے سرمایہ کاری کے مواقع کو عملی تعاون میں بدلنے کا عمل تیز کیا ہے۔
حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان پاک-یو اے ای مشترکہ وزارتی کمیشن کا 12واں اجلاس منعقد ہوا، جس میں تجارت، سرمایہ کاری، فوڈ سیکیورٹی، ہوا بازی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی جیسے کلیدی شعبوں میں تعاون کے امکانات پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اجلاس میں طے پایا کہ موجودہ شراکت داری کو مزید وسعت دے کر باہمی فوائد کو یقینی بنایا جائے گا۔
معاشی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس طرح کی صنعتی شراکت داری پاکستان کے درآمدی اخراجات میں کمی اور مقامی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ماہرین نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ اگر نان ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کر دیا جائے اور کسٹمز کے عمل کو ہم آہنگ کر لیا جائے تو آئندہ پانچ برسوں میں باہمی تجارت کو دوگنا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا آئی ٹی اور فِن ٹیک سیکٹر خلیجی سرمایہ کاروں کے لیے خاصی کشش رکھتا ہے، جو جدید ٹیکنالوجی اور سروس انڈسٹری کے میدان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کاروباری مشیر فیضان مجید نے کہا ہے کہ اگر پاکستان ’’دبئی فری زونز‘‘ کا مؤثر استعمال کرے اور مخصوص تجارتی سہولت مراکز قائم کیے جائیں، تو برآمدات میں تیزی سے اضافہ ممکن ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان مضبوط تجارتی اور اقتصادی تعاون نہ صرف دوطرفہ ترقی بلکہ علاقائی استحکام کی ضمانت بھی بن سکتا ہے، جو مستقبل میں نئے اقتصادی امکانات کے دروازے کھولے گا۔