شوگر ملز، بروکرز، ہول سیل ڈیلرز اور کریانہ مرچنٹس کے درمیان اب تک چینی کی ہول سیل اور پرچون فروخت کے لیے کوئی مؤثر نظام تشکیل نہیں دیا جا سکا، جس کے نتیجے میں راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں چینی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
لاہور اور اسلام آباد میں گزشتہ روز اس مسئلے کے حل کے لیے ہونے والی ملاقاتیں بھی عملاً کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔ چینی کی ہول سیل سپلائی گزشتہ 13 روز سے معطل ہے، جس کے باعث زیادہ تر کریانہ اسٹورز کا اسٹاک مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ جن دکانداروں کے پاس چینی موجود ہے، وہ اسے شہر کے اندر 210 روپے فی کلو اور مضافاتی علاقوں میں 220 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کر رہے ہیں۔
کریانہ مرچنٹس نے واضح اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت انہیں ہول سیل پر چینی 165 روپے فی کلو فراہم کرے، تو وہ اسے 173 روپے فی کلو پر فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب ضلعی انتظامیہ نے مہنگے داموں چینی بیچنے اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کارروائیاں کرتے ہوئے 127 دکانداروں کے چالان کیے، 7 دکانداروں کو گرفتار کیا گیا اور مجموعی طور پر 2 لاکھ 28 ہزار روپے کے جرمانے عائد کیے گئے۔ مزید برآں، 4 دکانیں سیل کر دی گئیں۔
لاہور میں بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کے بعد اب گلی محلوں میں موجود کریانہ دکانوں سے بھی چینی مکمل طور پر غائب ہو چکی ہے۔ شوگر ملز مالکان، تھوک فروش اور پرچون دکاندار کسی جگہ بھی سرکاری نرخ پر چینی فروخت نہیں کر رہے۔
ملز مالکان تھوک فروشوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں جبکہ چھوٹے دکانداروں کا کہنا ہے کہ جب سے حکومت نے چینی کے لیے سرکاری نرخ مقرر کیے ہیں، تب سے چینی مارکیٹ سے غائب ہو گئی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت اگر ملز مالکان کو کنٹرول کرے، تو عوام کو چینی سرکاری ریٹ پر مہیا کی جا سکتی ہے۔
شہریوں نے بھی سخت غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چینی شہر بھر سے نایاب ہو گئی ہے، اور یہ سوال اٹھایا کہ آخر حکومت کی رٹ کہاں ہے؟