چین نے کئی ممالک کے لیے ویزا فری انٹری پالیسی میں توسیع کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے، جس کے تحت اب یہ سہولت 31 دسمبر 2026 تک نافذالعمل رہے گی۔ چینی وزارتِ خارجہ کے مطابق اس پالیسی میں مزید توسیع کے ساتھ سویڈن کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس پر 10 نومبر سے عمل درآمد شروع ہوگا۔ وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ نِنگ نے پیر کے روز معمول کی پریس بریفنگ میں اس فیصلے کی تصدیق کی۔
یہ ویزا فری پالیسی ابتدا میں 2024 کے اختتام تک محدود تھی، تاہم اب اس کی مدت دو سال کے لیے بڑھا دی گئی ہے، جس کے تحت اہل ممالک کے شہری کاروباری سرگرمیوں، سیاحت، خاندانی ملاقات یا ٹرانزٹ کے لیے 30 دن تک بغیر ویزا کے چین کا سفر کر سکیں گے۔ اس سہولت کا اطلاق یورپ، خلیجی خطے، جنوبی امریکا اور ایشیا پیسیفک کے متعدد ممالک پر ہوگا۔
چینی حکام کے مطابق یہ قدم بیجنگ کی اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ کووِڈ کے بعد شدید متاثر ہونے والے سیاحت کے شعبے کو دوبارہ فعال کرنا چاہتا ہے۔ ویزا کی رکاوٹیں دور کر کے مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سیاح چین کا رخ کریں اور وبا سے قبل والے بین الاقوامی روابط بحال ہوسکیں۔
توسیع ایسے وقت میں کی گئی ہے جب چین یورپی یونین کے ساتھ اپنے سفارتی و معاشی تعلقات مضبوط بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ برسلز میں ہونے والی حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے بعد چین نے کئی صنعتی پابندیوں میں نرمی کی، خاص طور پر نایاب معدنیات کی برآمدات میں یورپی ممالک کے لیے رعایتیں بحال کی گئیں۔ دونوں فریقین نے سپلائی چین کے استحکام کے لیے رابطے برقرار رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ویزا فری پالیسی کا دائرہ وسیع کرنے سے نہ صرف سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا بلکہ یورپی اقوام کے ساتھ عوامی سطح پر روابط اور تجارتی تعلقات بھی مزید مستحکم ہوں گے۔
چین کی تازہ فہرست میں اینڈورا، ارجنٹائن، آسٹریلیا، آسٹریا، بحرین، بیلجیم، برازیل، بلغاریہ، چِلی، کروشیا، قبرص، ڈنمارک، ایسٹونیا، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، یونان، ہنگری، آئس لینڈ، آئرلینڈ، اٹلی، جاپان، کویت، لٹویا، لیختنسٹائن، لکسمبرگ، مالٹا، موناکو، مونٹی نیگرو، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، شمالی مقدونیہ، ناروے، عمان، پیرو، پولینڈ، پرتگال، رومانیہ، سعودی عرب، سلوواکیہ، سلووینیا، جنوبی کوریا، اسپین، سوئٹزرلینڈ اور یوروگوائے شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل نہیں ہے۔
چین کا یہ اقدام بیک وقت عالمی سیاحت، اقتصادی سرگرمیوں اور سفارتی تعلقات کو نئی رفتار دینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔