پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں جمعرات کو کاروبار کے آغاز سے ہی تیزی کا رجحان دیکھا جارہا ہے جس کے نتیجے میں بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک لاکھ 31 ہزار کی بلند سطح عبور کرگیا۔
ٹریڈنگ کے دوران ایک موقع پر 100 انڈیکس 131,325.10 پوائنٹس کی بلند ترین سطح پر بھی جاپہنچا تھا۔
صبح 10 بج کر 50 منٹ پر بینچ مارک انڈیکس 401.72 پوائنٹس یا 0.31 فیصد اضافے سے 130,745.75 پوائنٹس پر جاپہنچا۔
توانائی شعبے میں بھرپور خریداری کا رجحان ہے جہاں اسٹاکس او جی ڈی سی، ماری، پی پی ایل، پی ایس او اور وافی میں مثبت زون میں دکھائی دیے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مارکیٹ کی ریکارڈ توڑ پیشرفت کی وجہ جارحانہ ادارہ جاتی خریداری، مضبوط منافع کی توقعات اور مثبت معاشی اشاریے ہیں۔
یاد رہے کہ بدھ کوز پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے تاریخی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اور پہلی بار 130,000 پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کرلی۔ بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 2,144 پوائنٹس یا 1.67 فیصد اضافے سے 130,344 پوائنٹس پر بند ہوا۔
عالمی سطح پر جمعرات کو ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں معمولی اضافہ دیکھا گیا، کیونکہ سرمایہ کار اہم امریکی روزگار رپورٹ کا انتظار کررہے ہیں جو ممکنہ طور پر فیڈرل ریزرو کی جانب سے جلد شرح سود میں کمی کے فیصلے کو جواز فراہم کرسکتی ہے جبکہ وہ امریکی کانگریس میں بڑے پیمانے پر ٹیکس اور اخراجات کے بل کی منظوری کے منتظر بھی ہیں۔
وال اسٹریٹ میں بدھ کی شب زبردست تیزی دیکھنے میں آئی اور مارکیٹ نئی ریکارڈ سطح پر بند ہوئی، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ نے ویتنام کے ساتھ تجارتی معاہدہ کر لیا ہے، جس میں امریکی درآمدات پر 20 فیصد ٹیکس شامل ہے، اس پیشرفت سے توقعات بڑھ گئیں کہ مزید تجارتی معاہدے بھی جلد طے پائیں گے۔
ایم ایس سی آئی کے جاپان کے سوا ایشیا پیسیفک کے حصص کا وسیع تر انڈیکس 0.2 فیصد بڑھا اور تقریباً چار سال کی بلند ترین سطح کے قریب ٹریڈ کرتا رہا، جبکہ جاپان کا نکی انڈیکس تقریباً مستحکم رہا۔
چین کے بلیو چِپ اسٹاکس میں 0.2 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ انڈیکس 0.6 فیصد گرگیا، جب کہ جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوا کہ جون میں چین کی سروسز سرگرمی گزشتہ نو ماہ کی کم ترین رفتار سے بڑھی۔
ایشیا میں نیسڈیک فیوچرز اور ایس اینڈ پی 500 فیوچرز میں معمولی سی تبدیلی دیکھی گئی۔ سرمایہ کار صدر ٹرمپ کے بڑے ٹیکس اور اخراجاتی بل کی ایوان نمائندگان سے منظوری کے منتظر تھے تاکہ اس کی حتمی منظوری ممکن ہو سکے۔
توقع ہے کہ یہ بل قومی قرضے میں 3.3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرے گا، ٹیکسوں میں نمایاں کمی لائے گا اور سماجی تحفظ کے پروگراموں میں کٹوتی کرے گا۔