اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر جمیل احمد نے واضح اشارہ دیا ہے کہ آئندہ 27 اکتوبر کو متوقع مالیاتی پالیسی کے اعلان میں شرحِ سود میں کسی قسم کی کمی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت اس وقت غیر یقینی حالات سے گزر رہی ہے، خصوصاً مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری مذاکرات اس فیصلے پر براہِ راست اثر ڈال سکتے ہیں۔ گورنر کے مطابق، مرکزی بینک موجودہ حالات میں فوری نرمی کے بجائے محتاط حکمتِ عملی کو ترجیح دے رہا ہے تاکہ مجموعی مالیاتی استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
امریکی جریدے بلومبرگ کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں جمیل احمد نے وضاحت کی کہ پالیسی ریٹ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا فیصلہ قبل از وقت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اقدام کئی اہم عوامل سے منسلک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شرحِ سود کے حوالے سے حتمی فیصلہ آئی ایم ایف کے مذاکرات کے نتائج اور حالیہ تباہ کن سیلابوں سے پیدا ہونے والے معاشی اثرات کے تجزیے کے بعد ہی کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی پیشگوئی کے مطابق مہنگائی 2026 کے اوائل میں عارضی طور پر درمیانی مدت کے ہدف 5 سے 7 فیصد کی حد سے کچھ زیادہ رہ سکتی ہے، تاہم اگلے مالی سالوں میں اس کے بتدریج کمی کے آثار موجود ہیں۔ ان کے بقول، اسٹیٹ بینک مہنگائی کے دباؤ کو مانیٹری پالیسی کے ذریعے قابو میں رکھنے کے لیے پرعزم ہے، اور اس ضمن میں جامع اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں اور آزاد ماہرینِ معیشت کا عمومی اتفاق ہے کہ حالیہ مہنگائی میں اضافہ، سیلاب کے معاشی اثرات اور بین الاقوامی مالیاتی دباؤ کے باعث شرحِ سود میں کسی کمی کے امکانات تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مرکزی بینک قلیل مدتی ترقی کے بجائے طویل المدتی مالیاتی استحکام کو ترجیح دے رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ستمبر 2025 میں افراطِ زر کی شرح 3 فیصد سے بڑھ کر 5.6 فیصد تک جا پہنچی، جس کی ایک بڑی وجہ زرعی شعبے میں ہونے والی تباہی اور سپلائی چین کا متاثر ہونا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنی گزشتہ میٹنگ میں بھی شرحِ سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ادارہ مہنگائی کے دباؤ اور ممکنہ بیرونی خطرات کے پیشِ نظر محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ مئی 2025 سے اب تک مہنگائی کے اعداد و شمار میں نسبتاً استحکام دیکھا گیا ہے، تاہم گورنر کے مطابق پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے احتیاط ہی بہتر راستہ ہے۔
بین الاقوامی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو 2026 میں 2.6 فیصد تک رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ملک کو درپیش ڈھانچہ جاتی کمزوریاں، سیاسی غیر یقینی صورتحال، اور معاشی اصلاحات کی سست رفتار اس پیشرفت میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
بلومبرگ کے ساتھ گفتگو میں جمیل احمد نے انکشاف کیا کہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ تین برسوں کے دوران انٹربینک مارکیٹ سے تقریباً 20 ارب ڈالر کی خریداری کی، جس کا مقصد زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنا تھا۔ ان کے مطابق یہ ایک سوچا سمجھا اور دور اندیشانہ فیصلہ تھا، کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پاکستان کے پاس موجودہ مالیاتی لچک پیدا نہ ہو پاتی۔
گورنر نے اس موقع پر تجارت سے متعلق بھی اہم نکات پیش کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے عالمی سطح پر خصوصاً امریکی مارکیٹ میں مواقع بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق امریکی خریدار پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات میں بڑھتی ہوئی دلچسپی دکھا رہے ہیں، حالانکہ ان مصنوعات پر 19 فیصد ٹیرف عائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی ٹیکسٹائل مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد ہونے کے سبب پاکستان کو برآمدات میں اضافہ کرنے کا ایک عملی موقع حاصل ہے۔
تاہم، جمیل احمد نے اعتراف کیا کہ بلند پیداواری اخراجات، مہنگی توانائی اور لاجسٹکس کے بڑھتے نرخ اس ممکنہ برتری سے مکمل فائدہ اٹھانے میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق اگر حکومت صنعتی لاگت کم کرنے، توانائی نرخوں میں استحکام لانے اور ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے سہولتیں فراہم کرے تو پاکستان عالمی مارکیٹ میں زیادہ مسابقتی پوزیشن حاصل کر سکتا ہے۔
برآمدکنندگان نے بھی گورنر کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی منڈی میں مواقع تو ضرور موجود ہیں، لیکن موجودہ ٹیرف پالیسی اور پیداواری اخراجات کے باعث پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں حریف ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ٹیکس پالیسیوں میں نرمی اور توانائی کی لاگت میں کمی لائے تو پاکستانی ایکسپورٹ سیکٹر تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔
آخر میں گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ عالمی تجارتی تبدیلیوں سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے وقت اور جامع پالیسی تعاون درکار ہے۔ ان کے مطابق، اگر حکومتی ادارے، ایکسپورٹرز اور مالیاتی ماہرین باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں تو پاکستان نہ صرف اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط بنا سکتا ہے بلکہ برآمدات کے فروغ کے ذریعے پائیدار معاشی ترقی کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے