کولمبو میں جاری آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ میں پاکستانی باؤلر نشرہ سندھو نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے لیے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ آسٹریلیا کے خلاف اہم میچ میں اپنی تباہ کن باؤلنگ سے تین کھلاڑیوں کو پویلین بھیجنے کے بعد وہ پاکستان کی جانب سے ویمنز ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والی باؤلر بن گئیں، جو قومی ویمنز کرکٹ کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔
نشرہ سندھو نے ورلڈ کپ کے 16 میچوں میں مجموعی طور پر 20 وکٹیں حاصل کر کے نیا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ اس سے قبل یہ اعزاز پاکستان کی سابق کپتان ثنا میر کے پاس تھا جنہوں نے ورلڈ کپ میں 18 میچوں میں 17 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ نشرہ کی یہ کارکردگی نہ صرف ان کے کیریئر کا یادگار لمحہ ہے بلکہ پاکستان ویمنز ٹیم کے لیے ایک تاریخی پیش رفت بھی ہے جو عالمی سطح پر ٹیم کے مورال کو بلند کرے گی۔
آسٹریلیا کے خلاف میچ کے دوران نشرہ سندھو نے اپنی بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین اہم کھلاڑیوں، ایلیس پیری، انا بیل سدرلینڈ اور تاہلیہ میک گرا کو آؤٹ کیا۔ ان وکٹوں نے پاکستان کو ایک مضبوط پوزیشن دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وکٹیں نہ صرف اس میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئیں بلکہ یہ بات بھی ظاہر کرتی ہیں کہ نشرہ اب عالمی سطح پر ایک خطرناک باؤلر کے طور پر اپنی پہچان بنا چکی ہیں۔
نشرہ کی یہ کارکردگی صرف ورلڈ کپ تک محدود نہیں بلکہ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی وہ اپنی جگہ مستحکم کر چکی ہیں۔ انہوں نے ندا ڈار کے ریکارڈ کی برابری کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے ون ڈے کرکٹ میں دوسری سب سے زیادہ وکٹیں لینے والی باؤلر کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔ یہ سنگ میل نشرہ نے محض 78 میچوں میں حاصل کیا جبکہ ندا ڈار نے یہی ریکارڈ 112 میچوں میں بنایا تھا، جو نشرہ کی باؤلنگ صلاحیتوں کا واضح ثبوت ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، دونوں پاکستانی کھلاڑیوں کے پاس اس وقت 108 وکٹیں ہیں۔ لیکن نشرہ نے نہ صرف کم میچوں میں اس ریکارڈ کو چھوا بلکہ عالمی سطح پر اپنی باؤلنگ میں تسلسل دکھاتے ہوئے خود کو ایک میچ ونر کے طور پر منوایا ہے۔ ان کی یہ کامیابی پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتی ہے جہاں ٹیم عالمی سطح پر مزید مضبوطی کے ساتھ ابھرے گی۔
ماہرین کرکٹ کا کہنا ہے کہ نشرہ سندھو کی حالیہ کارکردگی نہ صرف پاکستان ویمنز ٹیم کے لیے حوصلہ افزا ہے بلکہ یہ عالمی کرکٹ میں ایک مضبوط پیغام بھی ہے کہ پاکستان کے پاس اب ایسی کھلاڑیاں موجود ہیں جو بڑے مواقع پر کھیل کا نقشہ بدل سکتی ہیں۔ ان کی کارکردگی نوجوان کھلاڑیوں کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ محنت اور تسلسل کے ذریعے عالمی سطح پر پہچان بنائی جا سکتی ہے۔