مصنوعی ذہانت (اے آئی) تیزی سے دنیا کے کام کرنے کے انداز کو تبدیل کر رہی ہے۔ جینیریٹیو اے آئی اب صرف ملازمتیں ختم نہیں کر رہی بلکہ روزگار کے طریقۂ کار، درکار مہارتوں اور تنخواہوں کے ڈھانچے کو بھی نئی شکل دے رہی ہے، جس سے عالمی سطح پر ورک فورس کے نظام میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
انڈیڈ ہائرنگ لیب اور کوارٹز میڈیا کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق تحقیق میں تقریباً 2,900 مختلف مہارتوں کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 40 فیصد مہارتیں اب بھی محفوظ ہیں، 19 فیصد مہارتوں میں انسان اور اے آئی مل کر کام کر رہے ہیں، جبکہ 40 فیصد مہارتیں ہائبرڈ نظام میں منتقل ہو چکی ہیں۔ صرف 1 فیصد مہارتیں ایسی ہیں جنہیں مکمل طور پر خودکار بنائے جانے کا خطرہ ہے۔
ٹیکنالوجی کا شعبہ سب سے زیادہ متاثرہ سیکٹر کے طور پر سامنے آیا ہے، جہاں ہائبرڈ ماڈل اور خودکار تبدیلی کے امکانات دیگر شعبوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی کوئی خطرہ نہیں بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہے، جس میں انسان اور اے آئی مل کر پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اب محض خطرہ نہیں بلکہ ایک مؤثر موقع بن چکی ہے جو ملازمین کو نئی پیشہ ورانہ سہولیات اور ریموٹ ورکنگ کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔ جو افراد اس ٹیکنالوجی کو سمجھ کر اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں گے وہ مستقبل کی کامیاب ترین ورک فورس کا حصہ بنیں گے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ اے آئی سے متعلق مہارتیں رکھنے والے ملازمین کی آمدنی اوسطاً 28 فیصد زیادہ ہے، جو سالانہ تقریباً 18 ہزار امریکی ڈالر کے اضافے کے برابر بنتی ہے۔ یہ فائدہ صرف ٹیکنالوجی کے شعبے تک محدود نہیں بلکہ مارکیٹنگ، فنانس اور ایچ آر جیسے شعبوں میں بھی واضح طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق مستقبل میں وہ انسانی مہارتیں سب سے زیادہ اہمیت رکھیں گی جو خودکار نہیں کی جا سکتیں، جن میں فیصلہ سازی، تخلیقی صلاحیت اور جذباتی ذہانت جیسے پہلو شامل ہیں۔ یہی صلاحیتیں اب روایتی کوڈنگ یا تکنیکی مہارتوں سے کہیں زیادہ اہم ہو گئی ہیں۔