لاہور: تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر ممکنہ پابندی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی جانب سے فیصلہ کچھ ہی دیر میں متوقع ہے۔
وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت صوبے میں امن و امان کے قیام کے لیے ہر ممکن قدم کررہی ہے اور کسی بھی گروہ کو ریاستی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ڈی جی پی آر آفس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے واضح کیا کہ پنجاب کے امن کو خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعات میں مذہبی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا، شہری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، گاڑیوں کو جلایا گیا اور ریاستی اداروں کے خلاف مزاحمت کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کسی ہتھیار بند جتھے کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ امن و امان کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات جاری ہیں اور ہتھیاروں کے لائسنس کے حوالے سے بھی صوبے میں وسیع کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔
عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ پنجاب میں اس وقت 10 لاکھ سے زائد افراد کے پاس اسلحہ موجود ہے۔ حکومت نے ایسے 28 ڈیلرز کے لائسنس منسوخ کر دیے ہیں جن کے کاغذات مکمل نہیں تھے، جب کہ 90 دیگر ڈیلرز کے لائسنس کی جانچ پڑتال جاری ہے۔ اس کے علاوہ جن دکانوں کے پاس قانونی اجازت نامہ نہیں تھا، انہیں سیل کر دیا گیا ہے۔
وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ تمام اسلحہ لائسنس خدمت مراکز میں دوبارہ رجسٹرڈ کرائے جائیں تاکہ غیر قانونی اسلحے کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ایک انتہا پسند مذہبی جماعت کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے جا رہی ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ٹی ایل پی پر پابندی کے حوالے سے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جائے گا۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ہمارا دین امن، بھائی چارے اور حسنِ سلوک کا درس دیتا ہے۔ کسی بھی مذہب یا تحریک کے نام پر ریاست کے خلاف بغاوت قبول نہیں کی جا سکتی۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت قانون کی بالادستی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی اور صوبے کے عوام کو امن و سلامتی فراہم کرنا اس کی پہلی ترجیح ہے۔